پوٹن ٹرمپ ملاقات: ارکانِ کانگریس امریکی صدر کے بیان پر برہم

صدر ٹرمپ روسی ہم منصب سے ملاقات کے بعد مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے ہیں۔

صدر ٹرمپ پر برہمی ظاہر کرنے والوں میں ڈیموکریٹس کے ساتھ ساتھ ان کی اپنی جماعت ری پبلکن کے ارکان بھی شامل ہیں۔

امریکی کانگریس کے کئی ارکان نے روس کے صدر ولادی میر پوٹن کے ساتھ ملاقات کے دوران صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مؤقف پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے انہیں تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔

اپنے روسی ہم منصب کے ساتھ ملاقات میں امریکی صدارتی انتخابات میں روسی مداخلت کے معاملے پر امریکی انٹیلی جنس کے برعکس موقف اپنانے پر صدر ٹرمپ پر برہمی ظاہر کرنے والوں میں ڈیموکریٹس کے ساتھ ساتھ ان کی اپنی جماعت ری پبلکن کے ارکان بھی شامل ہیں۔

گزشتہ روز فن لینڈ کے دارالحکومت ہیلسنکی میں روسی ہم منصب کے ساتھ ملاقات کےبعد مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے امریکی صدارتی انتخابات میں روس کی مداخلت سے متعلق امریکہ میں گزشتہ 14 ماہ سے جاری تحقیقات کو اپنے" ملک کے لیے ایک تباہی" قرار دیا تھا۔

امریکی ایوانِ نمائندگان کے ری پبلکن اسپیکر پال رائن نے کہا ہے کہ صدر ٹرمپ کو اس حقیقت کا ادراک ہونا چاہے کہ روس امریکہ کا اتحادی نہیں۔

امریکی ایوانِ نمائندگان کے اسپیکر پال رائن (فائل فوٹو)

پیر کو اپنے ایک بیان میں ریاست وسکونسن سے منتخب رکنِ کانگریس نے کہا ہے کہ امریکہ کی توجہ روس سے اس کی حرکتوں کا جواب طلب کرنے اور امریکی جمہوریت پر اس کے نازیبا حملوں کو روکنے پر مرکوز ہونی چاہیے۔

ریاست ایریزونا سے منتخب سینئر ری پبلکن سینیٹر جان مک کین نے کہا ہے کہ ہیلسنکی میں ہونے والی ملاقات کے بعد مشترکہ پریس کانفرنس میں صدر ٹرمپ کے مؤقف کو حالیہ تاریخ میں کسی امریکی صدر کی سب سے شرم ناک کارکردگی کہا جاسکتا ہے۔

اپنے بیان میں سینیٹر مک کین نے کہا ہے کہ صدر ٹرمپ کی خوش گمانی، انا پرستی اور مطلق العنان حکمرانوں کے ساتھ ان کی ہمدردی کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔

امریکی سینیٹ کی خارجہ امور کمیٹی کے سربراہ اور ریاست ٹینے سی سے منتخب ری پبلکن سینیٹر باب کورکر نے کہا ہے کہ صدر پوٹن کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس میں صدر ٹرمپ کے مؤقف سے یہ تاثر گیا کہ جیسے امریکہ ہار مان چکا ہے اور دنیا میں اب اس کا وقت نہیں رہا۔

امریکی سینیٹ کی خارجہ امور کمیٹی کے سربراہ باب کورکر

ڈیموکریٹ ارکانِ کانگریس نے بھی روسی صدر کے ساتھ ملاقات میں صدر ٹرمپ کے مؤقف کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔

سینیٹ کے اقلیتی رہنما چک شومر نے کہا ہے کہ امریکی انٹیلی جنس اداروں کا متفقہ مؤقف ہے کہ 2016ء کے صدارتی انتخابات میں روس نے مداخلت کی تھی۔ لیکن صدر ٹرمپ اس معاملے پر ہیلسنکی میں ولادی میر پوٹن کے ساتھ کھڑے نظر آئے۔

پیر کو نیویارک میں ایک پریس کانفرنس کرتے ہوئے چک شومر نے کہا کہ صدر ٹرمپ نے 'سی آئی اے' کے موقف کے بجائے 'کے جی بی' کے مؤقف کو قبول کرلیا ہے۔

ریاست ورجینیا سے ڈیموکریٹ رکنِ کانگریس جیری کونولی نے صدر ٹرمپ اور پوٹن کی مشترکہ پریس کانفرنس پر اپنے ردِعمل میں کہا ہے کہ صدر ٹرمپ نے روسی وزارتِ خارجہ کے ترجمان کی نئی نوکری کرلی ہے۔

صدر پوٹن اور ٹرمپ کی اس ملاقات سے تین روز قبل ہی روسی مداخلت کی تحقیقات کرنے والے آزاد تفتیش کار رابرٹ مولر کی ٹیم نے روسی انٹیلی جنس کے 12 اہلکاروں کے خلاف ایک عدالت میں فردِ جرم پیش کی تھی۔

فردِ جرم میں روسی اہلکاروں پر ہیلری کلنٹن کی 2016ء کی انتخابی مہم اور ڈیموکریٹ پارٹی پر سائبر حملوں میں ملوث ہونے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔

صدر ٹرمپ کے دیرینہ ناقد اور ایریزونا سے منتخب ری پبلکن سینیٹر جیف فلیک نے اپنے ردِ عمل میں کہا ہے کہ انہوں نے کبھی سوچا بھی نہیں کہ وہ یہ دن دیکھیں گے کہ ایک امریکی صدر اپنے روسی ہم منصب کے ساتھ کھڑے ہو کر روسی جارحیت کا الزام خود امریکہ پر ہی عائد کردے گا۔

اپنے خلاف ہونے والی اس تنقید پر صدر ٹرمپ نے ٹوئٹر پر اپنے ردِ عمل میں کہا ہے کہ وہ پہلے بھی کئی بار کہہ چکے ہیں اور پھر کہتے ہیں کہ انہیں اپنے انٹیلی جنس اہلکاروں پر بہت اعتماد ہے۔

لیکن، ان کے بقول، ان کا یہ ماننا ہے کہ اچھے مستقبل کے حصول کے لیے دنیا کی دو بڑی جوہری طاقتوں کو ماضی سے نکل کر آگے بڑھنا چاہیے۔

امریکہ کے نائب صدر مائیک پینس نے امریکہ روس سربراہی ملاقات میں صدر ٹرمپ کے موقف پر ہونے والی تنقید پر کوئی ردِ عمل ظاہر نہیں کیا ہے۔

البتہ اپنے ایک بیان میں مائیک پینس نے کہا ہے کہ سربراہی ملاقات میں دونوں ملکوں کے درمیان اختلافات پر تفصیل سے بات ہوئی اور جیسا کہ دنیا اور امریکی عوام دیکھ چکے ہیں کہ صدر ٹرمپ ہمیشہ امریکہ کی خوش حالی اور سلامتی کو مقدم رکھیں گے۔