فیصلے میں کہا گیا ہے کہ اس کا کوئی ثبوت سامنے نہیں آیا کہ امریکی حکومت نے ٹیلی فون کا ڈیٹا، دہشت گردوں کے ممکنہ حملوں کے بارے میں تفتیش اور ان حملوں کو ہونے سے روکنے سے ہٹ کر استعمال کیا
واشنگٹن —
ایک امریکی جج نے نیشنل سیکورٹی ایجنسی کی جانب سے لاکھوں امریکیوں کے فون کالز کی نگرانی کے پروگرام کو جائز قرار دیا ہے اور امریکہ میں شہری حقوق سے متعلق ایک تنظیم ’امریکن سول لبرٹیز یونین‘ کی جانب سے ’این ایس اے‘ کے دہشت گردی کے خاتمے سے متعلق اس متنازعہ پروگرام کو عدالت میں چیلنج کیے جانے کو مسترد کر دیا ہے۔
جمعے کے روز سامنے آنے والا یہ فیصلہ نیویارک میں مین ہیٹن کی عدالت میں ڈسٹرکٹ جج ولیم پالے نے دیا۔ جج ولیم پالے کی جانب سے دیا جانے والا یہ فیصلہ 16 دسمبر میں واشنگٹن ڈی سی میں ڈسٹرکٹ جج رچرڈ لیون کی جانب سے آنے والے اُس فیصلے سے مختلف ہے جس میں امریکی خفیہ ادارے این ایس اے کی جانب سے امریکیوں کے ٹیلی فون کے نگرانی کے پروگرام کو غیر آئینی قرار دیا گیا تھا۔
لاکھوں امریکیوں کے ٹیلی فون کی نگرانی سے متعلق پروگرام کے بارے میں اس وقت معلومات سامنے آئی تھیں جب امریکی خفیہ ادارے ’این ایس اے‘ کے سابق ملازم ایڈروڈ سنوڈن نے اس پروگرام کا انکشاف کیا تھا۔ تب سے، امریکہ میں خفیہ ادارے کے اس پروگرام کے بارے میں بحث جاری ہے۔ امریکیوں کا کہنا ہے کہ یہ پروگرام ان کی نجی زندگی کے حقوق سے متصادم ہے، جبکہ امریکی حکومت کا موٴقف ہے کہ یہ پروگرام ملک میں دہشت گردی کے امکانات کو ختم کرنے اور امریکیوں کو دہشت گردی کا نشانہ بننے سے روکنے کی ایک کاوش ہے۔
54 صفحوں پر مشتمل فیصلے میں یہ بھی کہا گیا کہ اس بارے میں کوئی ثبوت سامنے نہیں آیا کہ امریکی حکومت نے ٹیلی فون کا ڈیٹا، دہشت گردوں کے ممکنہ حملوں کے بارے میں تفتیش اور ان حملوں کو ہونے سے روکنے سے کسی طور ہٹ کر استعمال کیا ہو۔
ڈسٹرکٹ جج ولیم پالے کا یہ بھی کہنا تھا کہ، ’ٹیکنالوجی کے بڑھتے ہوئے استعمال کی وجہ سے القاعدہ کو عالمی سطح پر دہشت گردانہ حملوں کی منصوبہ بندی میں مدد ملتی ہے۔ ٹیلی فون ڈیٹا اکٹھا کرنا، حکومت کی جانب سے احتیاطی تدبیر اور جوابی کارروائی ہے‘۔
صدر اوباما خفیہ ادارے ’این ایس اے‘ کی جانب سے امریکیوں کے فون کی خفیہ نگرانی کے پروگرام کا بارہا دفاع کر چکے ہیں، مگر ساتھ ہی، اس بات پر بھی آمادہ دکھائی دیتے ہیں کہ اس پروگرام پر چند پابندیاں نافذ کی جا سکتی ہیں۔
جمعے کے روز سامنے آنے والا یہ فیصلہ نیویارک میں مین ہیٹن کی عدالت میں ڈسٹرکٹ جج ولیم پالے نے دیا۔ جج ولیم پالے کی جانب سے دیا جانے والا یہ فیصلہ 16 دسمبر میں واشنگٹن ڈی سی میں ڈسٹرکٹ جج رچرڈ لیون کی جانب سے آنے والے اُس فیصلے سے مختلف ہے جس میں امریکی خفیہ ادارے این ایس اے کی جانب سے امریکیوں کے ٹیلی فون کے نگرانی کے پروگرام کو غیر آئینی قرار دیا گیا تھا۔
لاکھوں امریکیوں کے ٹیلی فون کی نگرانی سے متعلق پروگرام کے بارے میں اس وقت معلومات سامنے آئی تھیں جب امریکی خفیہ ادارے ’این ایس اے‘ کے سابق ملازم ایڈروڈ سنوڈن نے اس پروگرام کا انکشاف کیا تھا۔ تب سے، امریکہ میں خفیہ ادارے کے اس پروگرام کے بارے میں بحث جاری ہے۔ امریکیوں کا کہنا ہے کہ یہ پروگرام ان کی نجی زندگی کے حقوق سے متصادم ہے، جبکہ امریکی حکومت کا موٴقف ہے کہ یہ پروگرام ملک میں دہشت گردی کے امکانات کو ختم کرنے اور امریکیوں کو دہشت گردی کا نشانہ بننے سے روکنے کی ایک کاوش ہے۔
54 صفحوں پر مشتمل فیصلے میں یہ بھی کہا گیا کہ اس بارے میں کوئی ثبوت سامنے نہیں آیا کہ امریکی حکومت نے ٹیلی فون کا ڈیٹا، دہشت گردوں کے ممکنہ حملوں کے بارے میں تفتیش اور ان حملوں کو ہونے سے روکنے سے کسی طور ہٹ کر استعمال کیا ہو۔
ڈسٹرکٹ جج ولیم پالے کا یہ بھی کہنا تھا کہ، ’ٹیکنالوجی کے بڑھتے ہوئے استعمال کی وجہ سے القاعدہ کو عالمی سطح پر دہشت گردانہ حملوں کی منصوبہ بندی میں مدد ملتی ہے۔ ٹیلی فون ڈیٹا اکٹھا کرنا، حکومت کی جانب سے احتیاطی تدبیر اور جوابی کارروائی ہے‘۔
صدر اوباما خفیہ ادارے ’این ایس اے‘ کی جانب سے امریکیوں کے فون کی خفیہ نگرانی کے پروگرام کا بارہا دفاع کر چکے ہیں، مگر ساتھ ہی، اس بات پر بھی آمادہ دکھائی دیتے ہیں کہ اس پروگرام پر چند پابندیاں نافذ کی جا سکتی ہیں۔