اردن میں ٹاور22نامی امریکی اڈے پر حملے کے بعد جس میں تین امریکی فوجی ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے ہیں مشرق وسطیٰ میں صورت حال مزید پیچیدہ ہو گئ ہے۔ اور مشرق وسطیٰ کے امور پر نظر رکھنے والے تجزیہ کار سمجھتے ہیں کہ اب امریکہ کے لئے یہ ضروری ہو گیا ہے کہ وہ بھرپور طریقے سے اسکا جواب دے اور حملے کرنے والی پراکسیز کی پشت پر جو قوت ہے اسکے خلاف کارروائی کرے۔
مشرق وسطیٰ میں امریکی اور اتحادی افواج پر اس حملے سمیت ہو نے والے اب تک کے ڈیڑھ سو سےزیادہ حملوں کے لئے ایران کی حمایت یافتہ ملیشیاؤں کو ذمہ دار ٹھیرایا گیا ہے جبکہ بعض تجزیہ کار یہ بھی سمجھتے ہیں کہ اسرائیل کی خواہش اور کوشش ہے کہ امریکہ اور ایران کے درمیان براہ راست تصادم شروع ہو جائے جس سے اسے فائدہ حاصل ہوگا۔
امریکہ میں برسر اقتدار ڈیمو کریٹس اور حزب اختلاف کی ریپبلیکن پارٹی دونوں جانب سے فوری جوابی کارروائی پر زور دیا جارہا ہے اور صدر بائیڈن نے بھی یہ عزم ظاہر کیا کہ اس حملے کا جواب دیا جائے گا۔ یہ پہلا موقع ہے کہ اس قسم کے کسی حملے میں امریکی فوج کا جانی نقصان ہوا ہے۔
دفاعی امور کے ماہر کامران بخاری
نیو لائینز انسٹی ٹیوٹ کے سینئر ڈائریکٹر کامران بخاری نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ایران جان بوجھ کر اسرائیل حماس جنگ کو اپنے اسٹریٹیجک مقاصد کے لئے استعمال کر رہا ہے۔ یہ سب کچھ سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ہو رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ امریکہ کہہ چکا ہے کہ وہ خطے میں کسی وسیع جنگ کے حق میں نہیں ہے اور وہ حماس اسرائیل جنگ کو بھیلنے سے روکنے کی پوری کوشش کرے گا اور اسی بات نے ایران کو دلیر کر دیا ہے۔ وہ امریکہ کو اس جنگ میں ملوث کرنے کی پوری کوشش کر رہا ہے۔
SEE ALSO: امریکہ ایران کے ساتھ جنگ نہیں چاہتا: وائٹ ہاؤس کا اردن حملے پر ردعملتاہم کامران بخاری کا کہنا تھا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ جنگ کا دائرہ پہلے ہی وسیع ہو چکا ہے۔ اگر یہ جنگ غزہ تک محدود رہتی تو کہا جاسکتا تھا کہ پھیل نہیں رہی۔ لیکن حزب اللہ کی کارروائیاں، عراق اور شام میں امریکی اور اتحادی افواج پر حملے اوربحیرہ احمر میں حوثیوں کے تجارتی جہاز رانی پر حملے، جن کے نتیجے میں تجارتی جہازرانی میں کمی آئی ہے۔ عالمی منڈیوں پر اسکے کیا اثرات پڑیں گے، وہ آئیندہ دنوں میں سامنے آئیں گے، تو انہوں نے تو اپنی طرف سے جنگ پھیلا دی ہے۔
کامران بخاری کہتے ہیں فرق اتنا تھا کے امریکہ اب تک بچنے کی کوشش کرتا رہا ہے۔ اسکا خیال تھا کہ چھوٹی موٹی کارروائی سے ایران اور اسکے حواری باز آجائیں گے۔ جیسے یمن میں حوثیوں کے اڈوں پر حملےکئے گئے لیکن ایسا نہیں ہوا اور وہ باز نہیں آرہے تو بقول کامران بخاری کے،اب کیا چارہ کار باقی رہ جاتا ہے امریکہ کے پاس۔
اس سوال کے جواب میں کہ امریکہ اب ممکنہ طور پر کیا کر سکتا ہے، کامران بخاری نے اخبار وال اسٹریٹ جنرل کے ایک ادارئیے کا حوالہ دیا اور کہا کہ اخبار لکھتا ہے کہ اب صورت حال یہ ہے کہ اسوقت خود صدر بائیڈن کا سیاسی مستقبل بھی داؤ پر لگا ہوا ہےاگر وہ کمزوری کا مظاہرہ کرتے ہیں تو ان کو اسی صورت حال کا سامنا کرنا ہو گا جس کا سامنا صدر جمی کارٹر کو ایران میں اسلامی انقلاب کے بعدبنائے گئے امریکی یرغمالوں کے بحران اور ان کو چھڑانے کی کوشش میں ناکامی کے بعد کرنا پڑا تھا۔
SEE ALSO: اردن میں ڈرون حملے میں تین امریکی فوجی ہلاک،بائیڈن جوابی کارروائی کے لیے پرعزمکامران بخاری نے مزید کہا کہ اخبار کے انتباہ سے قطع نظر بھی حقیقت یہ ہی ہے کہ اس وقت بہت کچھ داؤ پر لگا ہوا ہے۔ امریکہ میں یہ صدارتی انتخابات کا سال ہے۔ صدر بائیڈن اور ان کی پارٹی کے سیاسی مستقبل کے علاوہ، ملک کی قومی سلامتی کے لحاظ سے بھی دباؤ ہے۔علاقائی سلامتی اور استحکام کے حوالے سے بھی ذمہ داریاں ہیں۔
کامران بخاری نے کہا کہ عالمی سطح پر امریکہ کی ساکھ کا بھی معاملہ ہے۔ اس لئے وہ نہیں سمجھتے اس مرحلے پر اب معاملہ ٹھنڈا ہو گا لیکن یہ کہنا ابھی قبل از وقت ہے کہ کس حد تک بات آگے جائے گی۔ اورکاؤنٹر اسٹرائیکس کس نوعیت کی ہوں گی۔
لیکن انہوں نے کہا کہ یہ بات طے بے کہ جب تک ایران کو یہ میسیج نہیں جائے گا کہ وہ اب اپنی پراکسیز کے پیچھے چھپ نہیں سکتا، وہ باز نہیں آئیں گے اور اسے کمزوری سمجھ کر دباؤ میں اضافہ ہی کریں گے۔ اس لئے جوابی دباؤ کی ضرورت ہے۔
SEE ALSO: ایران سے منسلک ڈرون نیٹ ورک پر نئی امریکی پابندیاںکامران بخاری نے اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ اب سوال یہ ہے کہ کیا ایران کے اندر جاکر حملہ ہو گا یا ایرانی اثاثوں کو اور اسکے فوجی عہدیداروں کو اسی طرح ہدف بنایا جائے گا جیسے عراق میں جنرل سلیمانی کو ہدف بنایاگیاتھا۔ تو ان کے خیال میں پنٹاگان نے یہ ساری آپشنز صدر بائیڈن اور انکی نیشنل سیکیورٹی ٹیم کے سامنے رکھ دی ہوں گی اور وہاں کارروائی کی نوعیت کے بارے میں حتمی فیصلہ ہو گا۔
کامران بخاری نے کہا لیکن جو اطلاعات آرہی ہیں۔ اور رات کو یہ اطلاع آئی تھی کہ فضا میں طیاروں میں بڑے پیمانے پر ایندھن بھرنے والے آدھے درجن کے سی 135 طیارے مشرق وسطیٰ کی جانب روانہ کئے گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس سے یہ ہی اندازہ ہو تا ہے اور انہوں نے ٹویٹ بھی کیا تھا کہ یہ کسی بڑی اور لمبی چوڑی فضائی مہم کی تیاری ہے۔ ورنہ چھوٹی موٹی مہم کے لئے تو امریکی اثاثے بحرین اور قطر وغیرہ میں اسکے اڈوں پرپہلے سے ہی موجود ہیں۔
SEE ALSO: ایران جہازوں پر حوثی حملوں میں براہ راست ملوث ہے، وائس ایڈمرل کوپرڈاکٹر راشد نقوی ایران میں مقیم پاکستانی صحافی اور تجزیہ کار
ڈاکٹر راشد نقوی ، ایران میں مقیم ایک پاکستانی صحافی اور تجزیہ کار ہیں، وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئیے انہوں نے کہا کہ جن گروپوں کے بارے میں مغربی ذرائع ابلاغ ’پراکسیز‘ کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں اسے ایران میں میڈیا سمیت کوئی تسلیم نہیں کرتا بلکہ اسے مزاحمتی بلاک کہا جاتا ہے،جو ایرانی میڈیا کے بقول خود مختار گروپ ہیں جو اپنے فیصلے خود کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ الگ بات ہے کہ بعض امور پر، جیسے فلسطینی مسئلہ ہے یا خطے کے بعض دوسرے مسائل ہیں، ان پر ایران کے سرکاری موقف سے انکی ہم آہنگی ہو۔ لیکن یہ کہنا غلط ہوگا کہ کہ مزاحمتی بلاک نے جو کچھ کیا ہےوہ ایران نے کیا یا وہ کروا رہا ہے۔
ڈاکٹر راشد نے کہا ایرانی میڈیا میں آج عراق کے مزاحمتی بلاک کے حوالے سے یہ خبریں نمایاں تھیں کہ یہ حملہ انہوں نے کیا ہے کیونکہ وہ غزہ کے فلسطینیوں کو تنہانہیں چھوڑیں گے۔ اور بقول ان کے فلسطینیوں کی جو نسل کشی ہورہی ہے اس پر ان کی قوم میں اضطراب ہے اور چونکہ امریکہ اسرائیل کے ساتھ کھڑا ہے اس لئے یہ کارروائیاں اسوقت تک جاری رہیں گی جب تک امریکہ اسرائیل پر دباؤ ڈال کر فلسطینیوں کے خلاف کارروائیوں کو بند نہیں کراتا۔
SEE ALSO: اردن میں ڈرون حملے میں نشانہ بننے والا امریکی فوجی اڈہ ’ٹاور 22‘ کیا ہے؟ڈاکٹر راشد نے کہا کہ ایرانی میڈیا اس ساری صورت حال کو اس عنوان سے پیش کر رہا ہے۔ اور خود اسلامی جمہوریہ ایران کی جانب سے بھی بظاہر اس پر کوئی رد عمل نہیں دیا گیا کہ امریکہ، ایران کو براہ راست نشانہ بنا سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہاں پر تو تاثر یہ ہی ہے کہ امریکہ میں سینیٹرز وغیرہ نے جو کہا ہے کہ ایران کے خلاف اقدام کیا جائے تو وہ(امریکہ) کارروائی تو ضرور کرے گا لیکن جو گروپ اس سے براہ راست متصادم ہیں انکے خلاف کارروائی کرے گا۔
ڈاکٹر راشد نقوی نے کہا کہ ایران کے تجزیہ کار کہتے ہیں کہ اسرائیل کی کوشش یہ ہے کہ وہ امریکہ اور ایران کو براراست جنگ میں ملوث کردے۔ آنہوں نے کہا کہ یہ صدر بائیڈن کے لئے بھی ایک امتحان ہے کہ کیا وہ ایسے میں براراہ راست ایران کے ساتھ جنگ میں ملوث ہونے کے لئے تیار ہیں جبکہ چند ماہ بعد وہاں صدارتی انتخابات ہونے والے ہیں۔ ان کو بہت سی باتوں کو پیش نظر رکھنا ہوگ۔
بہر حال، بقول انکے، یہ ایک حقیقت ہے کہ آنے والے گھنٹوں اور دنوں میں کیا ہوگا۔ اس بارے میں قطعیت سے کوئی پیشگوئی نہیں کی جاسکتی۔