دولت اسلامیہ لوگوں کو مذہب سے بدظن کر رہی ہے: عالم دین

امریکہ کے ایک سرکردہ امام نے ’دولت اسلامیہ‘ کا موازنہ صومالیہ کے انتہا پسند گروہ، ’الشباب‘ سے کرتے ہوئے کہا ہے کہ شدت پسند لوگوں کو مذہب کی طرف راغب کرنے کی بجائے، اسلام کو نقصان پہنچایا جا رہا ہے

میناپولس کے امریکی شہر سے تعلق رکھنے والے ایک سرکردہ امام نے دولت اسلامیہ کے شدت گردوں کے ہاتھوں یرغمالیوں کا سر قلم کیے جانے کے عمل کو ’غیر اسلامی‘ قرار دیا ہے۔

شیخ عبدالرحمٰن شیخ عمر نے ’وائس آف امریکہ‘ کی صومالی سروس کو بتایا کہ اسلامی شریعہ کی رو سے قیدیوں کے حقوق ہوا کرتے ہیں، جنھیں اُن کی قومیت کی بنیاد پر قتل نہیں کیا جا سکتا۔

اُنھوں نے دولت اسلامیہ کا موازنہ صومالیہ کے انتہا پسند گروہ، الشباب سے کرتے ہوئے کہا کہ شدت پسند لوگوں کو مذہب کی طرف راغب کرنے کی بجائے، اسلام کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔

شیخ عبدالرحیم شیخ عمر کے الفاظ میں، ’اُنھوں نے تدریس سے وابستہ افراد کو قتل کیا، پروفیسروں کو ہلاک کیا، اس حد تک کہ اُنھوں نے مساجد کے اماموں تک کو ہلاک کیا ہے۔ اُنھوں نے بے شمار افراد کو قتل کیا، جن میں سے بہت سارے بے گناہ لوگ تھے۔ اسی وقت، وہ کہتے ہیں، ہم لوگوں کو بچا رہے ہیں۔ اور وہ سب سے زیادہ مسلمانوں کو ہلاک کررہے ہیں۔ وہ اسلام کو نقصان پہنچا رہے ہیں، اسلام کو مسخ کر رہے ہیں‘۔

شیخ عمر نے کہا کہ امریکہ اہل کاروں کو اس تاثر کو دور کرنے کے لیے عملی اقدام کرنے چاہئیں کہ یہ جنگ اسلام کے خلاف نہیں ہے۔

اُنھوں نے 11 ستمبر 2001ء کے بعد مسلمانوں کے ساتھ برتے گئے رویوں کا ذکر کیا، جنھیں عام زندگی میں پریشان کُن سوالات کی بوچھاڑ کا سامنا کرنا پڑتا تھا، مساجد پر نگاہ رکھی جاتی تھی، جس سے یہ تاثر ملتا تھا جیسے امریکہ مسلمانوں کے خلاف لڑائی کر رہا ہے۔

اُنھوں نے کہا کہ اس طرح کا زاوئے نظر لوگوں کو سخت گیری کی طرف راغب کرتا ہے۔

شیخ عمر نے کہا کوئی ایسا طریقہ ڈھونڈنا چاہیئے جس سے چند گنتی کے انتہا پسندوں کو 99.9فی صد لوگوں سے الگ کیا جائے، جو درست خیالات رکھتے ہیں، وہ اپنے عقیدے پر عمل پیرا ہونا چاہتے ہیں، یہ نہیں کہ اُنھیں مسلمان ہونے پر کسی پشیمانی کا سامنا ہو۔