عراق کی فتح سے قبل امریکہ ایران خفیہ بات چیت ہوئی تھی: خلیل زاد

فائل

زلمے خلیل زاد نے، جو عراق میں امریکہ کے سابق سفیر رہ چکے ہیں، اُن کی اگلی کتاب، ’دِی انوائے‘ میں بتایا گیا ہے کہ اب تک صیغہٴ راز والی یہ بات چیت جنیوا میں ہوئی، جس کے نتیجے میں ایران نے وعدہ کیا کہ بھٹک کر ایرانی فضائی حدود میں آنے والے امریکی لڑاکا طیاروں پر ایران فائر نہیں کھولے گا

سابق امریکی اہل کار کی نئی کتاب میں بتایا گیا ہے کہ سنہ 2003 میں امریکی قیادت کی جانب سے صدام حسین کا تختہ الٹے جانے کی جنگ سے پہلے عراق کے مستقبل کے بارے میں امریکہ نے ایران سے خفیہ مذاکرات کیے تھے۔

زلمے خلیل زاد نے، جو عراق میں امریکہ کے سابق سفیر رہ چکے ہیں، اُن کی اگلی کتاب، ’دِی انوائے‘ میں بتایا گیا ہے کہ اب تک صیغہٴ راز والی یہ بات چیت جنیوا میں ہوئی، جس کے نتیجے میں ایران نے وعدہ کیا کہ بھٹک کر ایرانی فضائی حدود میں آنے والے امریکی لڑاکا طیاروں پر ایران فائر نہیں کھولے گا۔ کتاب کے اقتباسات ’نیو یارک ٹائمز‘ میں شائع ہوئے ہیں۔

کتاب میں کہا گیا ہے کہ اقوام متحدہ میں ایرانی سفیر اور آئندہ کے وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے امریکہ کے ساتھ اِن ملاقاتوں میں شرکت کی تھی۔ کتاب میں بتایا گیا ہے کہ اپریل، سنہ 2003 میں بغداد کے عراقی دارالحکومت کو فتح کیے جانے کے بعد بھی یہ بات چیت جاری رہی۔ لیکن، بالآخر نئی عراقی حکومت کو کیسے تشکیل دینے اور دہشت گردی میں ایران کی حمایت کے معاملے پر، بالآخر اختلاف رائے پیدا ہوا۔

صدر جارج ڈبلیو بش کی انتظامیہ نے اُسی سال مئی میں یہ مذاکرات بند کردیے۔

کتاب میں، خلیل زاد نے تحریر کیا ہے کہ، ’’میری رائے یہ ہے کہ اگر ہم اِن سفارتی رابطوں اور ضروری اقدام کو ایکساتھ چلاتے، تو ہم ایران کی سوچ بدلنے میں کامیاب ہو جاتے‘‘۔