پینٹاگان لیکس: کیا اتحادیوں کے ساتھ مستقبل کے تعاون میں رکاوٹ آئے گی؟

امریکی محکمہ دفاع (پینٹاگان) کے یوکرین جنگ کے بارے میں جائزوں سمیت درجنوں خفیہ دستاویزات کے حالیہ دنوں میں افشا ہونے سے یہ تشویش پیدا ہوگئی ہے کہ ان میں موجود معلومات 2022 میں شروع ہونے والی جنگ میں روس کی مدد کر سکتی ہیں۔ یہ خدشہ بھی ظاہر کیا جا رہا ہے کہ یہ واقعہ امریکہ کی انٹیلی جنس ایجنسیوں کے مستقبل میں کام کرنے میں مشکلات بڑھا سکتا ہے۔

لیک ہونے والی دستاویزات میں دیگر چیزوں کے علاوہ میدان جنگ میں روس اور یوکرین کے مضبوط پہلوؤں اور کمزوریوں کے تفصیلی جائزے، نئے ہتھیاروں کے نظام کی متوقع ترسیل کا وقت اور یہ انکشاف شامل ہے کہ یوکرین کے فضائی دفاع کو تشویش ناک حد تک گولہ بارود کی کمی کا سامنا ہے۔

ان عام ہونے ولی فائلوں میں شامل معلومات ظاہر کرتی ہیں کہ امریکی انٹیلی جنس سروسز کو روسی فوج کے کام کے بارے میں غیر معمولی معلومات حاصل ہیں۔ اس بنا پر وہ یوکرینی افواج کو آنے والے حملوں کے بارے میں پیشگی اطلاعات فراہم کرنے اور روسی افواج پر حملوں کو مرکوز کرنے میں مدد کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

دستاویزات یہ بھی بتاتی ہیں کہ یوکرین کی حمایت کرنے کی امریکی کوششوں میں متعدد امریکی حکومتی اور غیر ملکی انٹیلی جنس سروسز میں آہنگی ہے۔

SEE ALSO: لیک ہونے والی دستاویزات قومی سلامتی کے لیے 'سنگین خطرہ' ہیں: پینٹاگان

لیک ہونے والی دستاویزات کو پوسٹ کرنے والے شخص یا افراد کی شناخت ابھی تک نہیں ہو سکی ہے۔ پینٹاگان نے کہا ہے کہ ان میں سے بہت سی محکمہ دفاع کی سرکاری دستاویزات کی تصاویر لگتی ہیں۔

پینٹاگان کے ایک ترجمان نے ہفتے کےا ختتام پر کہا کہ محکمہ دفاع نے اس لیک کے معاملے کو تحقیقات کے لیے محکمۂ انصاف کو بھیج دیا ہے۔

خیال رہے کہ امریکہ میں کسی سیکیورٹی کلیئرنس کے حامل شخص کے لیے خفیہ معلومات کو بلا اجازت عام کرنا ایک مجرمانہ فعل ہے۔

اپنی ہی کامیابی کا شکار

انٹیلی جنس کمیونٹی کے تجربہ کار اہلکار کہتے ہیں کہ خفیہ معلومات کےلیک ہونے سے ایک طرف تو امریکہ کی یوکرین میں جنگ کے بارے میں انٹیلی جنس جمع کرنے میں کامیابی نمایا ں نظر آتی ہے لیکن دوسری جانب اس سے انٹیلی جنس کوشش خطرے میں پڑتی ہے۔

امریکی ٰخفیہ ادارے سینٹرل انٹیلی جنس ایجنسی (سی آئی اے) کے ڈائریکٹوریٹ آف آپریشنز میں 30 سال تک خدمات سرانجام دینے والے جوزف وپل کہتے ہیں کہ وہ انٹیلی جنس اکٹھا کرنے میں مصروف مختلف سرکاری ایجنسیوں کے درمیان اس قدر تعاو ن سے حیران ہیں۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ ان جائزوں میں غالباً امریکہ کے بیرونی شراکت داورں کی بہت سی انٹیلی جنس معلومات موجود ہیں۔

وِپل جو اب بوسٹن یونیورسٹی کے فریڈرک ایس پردی اسکول آف گلوبل اسٹڈیز میں پروفیسر ہیں، سمجھتے ہیں کہ بدقسمتی سے اس کوشش میں وسیع پیمانے پر ایجنسیوں اور حکومتوں کے شامل ہونے نے ممکنہ طور پر خفیہ معلومات کے افشا ہونے کے امکانات کو بڑھا دیا۔

SEE ALSO: روسی لڑاکا طیارہ بین الاقوامی فضائی حدود میں امریکی ڈرون سے ٹکرا گیا

دستاویز کے عام ہونے کو ایک بڑی لیک قرار دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس واقعے کو ان دستاویز تک لوگوں کی ایک تعداد کی رسائی کے ضمن میں سمجھا جا سکتا ہے۔

اس سلسلے میں سی آئی اے کے لیے کام کرنے کا 26 سال کا تجربہ رکھنے والے سابق اہلکار نکولس ڈجمووک کہتے ہیں کہ لیک کا یہ واقع مستقبل میں اس قسم کی معلومات کے اشتراک کو مزید مشکل بنا سکتا ہے۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا " "یہ اعتماد کی خلاف ورزی ہے۔"

وہ کہتے ہیں کہ انٹیلی جنس کمیونٹی میں شامل ایجنسیاں اپنے تمام ملازمین کے اعتماد کے بنیادی تصور کے بغیر اپنا کام نہیں کر سکتیں۔ انہوں نے اس واقعے کو اعتماد کوٹھیس پہنچانے کے مترادف قرار دیا۔

ممکنہ نقصانات کیا ہو سکتے ہیں؟

ماہر نکولس ڈجمووک کے بقول ان لیکس میں متعدد سطحوں پر امریکی انٹیلی جنس کمیونٹی کی بین الاقوامی کارروائیوں کو نقصان پہنچانے کی صلاحیت ہے۔

انہوں نے کہا کہ انٹیلی جنس شیئرنگ گروپ جسے "فائیو آئیز" کے نام سے جانا جاتا ہے اور جس میں امریکہ، کینیڈا، برطانیہ، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ شامل ہیں کےدرمیان تعاون شاید زیادہ متاثر نہیں ہوگا۔

اُن کے بقول وہ انٹیلی جنس ایجنسیاں جو امریکہ کے کم قریب ہیں وہ یہ سوال اُٹھا سکتی ہیں کہ امریکہ کے ساتھ اشتراک کی کیا اتنی قیمت ہے کہ اُن کی سرگرمیاں اس طرح بے نقاب ہو جائیں؟

SEE ALSO: امریکہ یوکرین کو مزید 45 ارب ڈالر اور پیٹریاٹ میزائل دے گا


نکولس ڈجمووک، جو اب امریکہ کی کیتھولک یونیورسٹی میں انٹیلی جنس اسٹڈیز پروگرام کے اسسٹنٹ پروفیسر اور ڈائریکٹر ہیں نے کہا کہ وہ مستقبل میں انٹیلی جنس ایجنسیوں میں بھرتی کے عمل کے بارے میں سب سے زیادہ فکر مند ہیں۔

اپنے نکتے کو بیان کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مثال کے طور پر اگر کوئی سی آئی اے کے لیے جاسوس بننے کے بارے میں سوچ رہا ہے تو وہ واقعی اس کے بارے میں دو بار سوچے گا کیوں کہ اس طرح کی خبریں جان لیوا ہو سکتی ہیں۔

انہوں نے وضاحت کی کہ یہ ایک ایسی چیز ہے جو لوگوں کو بھرتی کرنے کی ہماری صلاحیت پر منفی اثر ڈال سکتی ہے کیوں کہ انٹیلی جنس جمع کرنے کے عمل میں انسانوں کے عمل دخل کی اشد ضرورت ہے۔

ان کے مطابق انٹیلی جنس کے شعبے سے منسلک کوئی بھی شخص اس واقعے سے بیزار ہونے کی کیفیت سے دو چار ہوگا۔

روس کے لیے محدود افادیت

لیک کے اس واقعے سے عام ہونے والی معلومات سے یہ واضح کرتی ہیں کہ امریکی انٹیلی جنس ایجنسیوں کو روس کی فوجی قیادت کے منصوبوں اور سوچ کے بارے میں کافی علم ہے۔

لیکن ماہرین کے نزدیک اُنہیں نہیں لگتا کہ ان لیکس کے ذریعے روس کے ہاتھ کوئی غیر معمولی دستاویزات لگ گئی ہیں جو اسے بہت زیادہ نئی معلومات فراہم کریں گی۔

اس پہلو پر بات کرتے ہوئے ماہر جوزف وپل کہتے ہیں کہ "روسی کوئی کل پیدا نہیں ہوئے تھے۔"

وہ کہتے ہیں کہ روسیوں کو امریکی صلاحیتوں اور یوکرین کو فراہم کی جانے والی امداد کے بارے میں پہلے ہی بہت حد تک تجزیاتی علم ہو گا۔

وہ کہتے ہیں کہ یوکرین میں روس کے غالباً اپنے ذرائع ہیں۔ لہذا ایسا نہیں ہے کہ اس لیک نے انہیں مکمل طور پر حیران کر دیا ہو۔لیکن یہ یقینی ہے کہ اس کے بعد روس کی کوشش ہو گی کہ وہ اپنے سیکیورٹی کے نظام کو جہاں تک ممکن ہو بہتر بنائے۔