امریکہ نے افغان صدر اشرف غنی اور اُن کے سیاسی حریف عبداللہ عبداللہ کے درمیان اتحادی حکومت بنانے پر عدم اتفاق کے سبب افغانستان کو دی جانے والی ایک ارب ڈالرز کی امداد میں فوری طور پر کمی کا اعلان کیا ہے۔
پیر کو دورۂ کابل کے بعد ایک بیان میں مائیک پومپیو نے کہا ہے کہ اگر افغانستان میں سیاسی بحران جاری رہتا ہے تو امریکہ آئندہ سال کے لیے بھی افغانستان کو ایک ارب ڈالر کی کمی پر تیار ہے۔
امریکی محکمہ خارجہ نے مائیک پومپیو کی طرف سے جاری بیان میں کہا ہے کہ وزیرِ خارجہ ایک اہم پیغام کے ساتھ کابل آئے تھے۔ انہوں نے افغان رہنماؤں سے براہِ راست بات کرتے ہوئے اُن پر زور دیا کہ وہ افغانستان کے عوام کی خاطر ایک ایسی حکومت بنانے پر سمجھوتہ کریں جس میں تمام فریقین شامل ہوں۔
وزیرِ خارجہ مائیک پومپیو کی جانب سے امداد میں کمی کا اعلان ایسے وقت میں کیا گیا ہے جب صدر اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ کے درمیان پیدا ہونے والے سیاسی تنازع کو حل کرنے کی امریکی کوششیں ناکام ہو گئی ہیں۔
محکمۂ خارجہ کے بیان کے مطابق امریکہ کو اس بات پر سخت افسوس ہے کہ اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ نے وزیرِ خارجہ مائیک پومپیو کو آگاہ کیا ہے کہ وہ ایسی اتحادی حکومت تشکیل دینے پر رضا مند نہیں جس میں سب شامل ہوں۔
بیان کے مطابق امریکہ کو دونوں رہنماؤں کے رویے پر مایوسی ہوئی ہے۔ ان رہنماؤں کی ناکامی کے سبب امریکہ اور افغانستان کے تعلقات کو نقصان پہنچا ہے اور اس وجہ سے افغان، امریکیوں اور اتحادی شراکت داروں کی رسوائی ہوئی ہے جنہوں نے اس ملک کے مستقبل کے لیے اپنی جان و مال کی قربانی دی ہے۔
اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ کا ردعمل
ادھر افغان صدر اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ نے امریکہ کے طرف سے افغانستان کی امداد میں کمی پر مختلف انداز میں ردعمل کا اظہار کیا ہے۔
افغان صدر نے امریکہ کے وزیر خارجہ کے ساتھ ہونے والی بات چیت کی ناکامی کا ذمہ دار عبداللہ عبداللہ کو قرار دیا ہے۔
صدر غنی نے کہا کہ عبداللہ عبداللہ کے مطالبات غیر آئینی ہیں۔ جن کو قبو ل کرنا افغان صدر کے اختیار میں نہیں ہے۔
دوسری طرف عبداللہ عبداللہ نے الزام عائد کیا کہ افغان صدارتی انتخابات کے بعد پیدا ہونے والے تنازے کو حل کرنے کا موقع کھو دیا گیا ہے۔
دونوں رہنماؤں نے مزید بات چیت پر بھی زور دیا۔
افغان صدر اشرف غنی نے منگل کو قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ کی طرف سے فوری طور پر افغانستان کے لیے ایک ارب ڈالر کی امداد میں کمی کو دیگر ذرائع سے دور کرنے کی کوشش کی جائے گی۔
'امداد میں کمی کرنا سخت اقدام ہے'
یاد رہے کہ امریکہ گزشتہ کئی برسوں سے افغانستان کو ہر سال مختلف مد میں اربوں ڈالر امداد دیتا آیا ہے۔
اس حوالے سے افغان امور کے ماہر اور صحافی طاہر خان کا کہنا ہے کہ امریکہ کے طرف سے افغان حکومت کی امداد میں کمی کرنا سخت اقدام ہے۔
ان کے بقول یہ امریکہ کی طرف سے افغان عمل کے حوالے سے ایک مایوسی کا اظہار ہے۔
طاہر خان نے مزید کہا کہ امریکہ نے طالبان کے ساتھ ایک معاہدہ کیا ہے اور امریکہ اس معاہدے پر پوری طرح عمل درآمد کا خواہاں ہے۔ اس کی راہ میں رکاوٹ افغان حکومت، اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ کے سیاسی اختلافات ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر افغانستان میں سیاسی اقتدار کی کشمکش کی وجہ سے افغان امن عمل کو نقصان پہنچتا ہے تو یہ امریکہ کے مفادات کے لیے بھی نقصان دہ ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ امریکہ نے صرف افغانستان کے لیے امداد میں کمی کا ہی اعلان نہیں کیا بلکہ مائیک پومپیو کے بیان میں کہا گیا ہے کہ افغانستان کے امریکہ کے معاونت سے جاری کئی دیگر پروگراموں پر بھی نظر ثانی کیا جا سکتا ہے۔
افغان امن عمل کے لیے کئی اقدامات باقی
پاکستان کی سابق سفیر ملیحہ لودھی کا کہنا ہے کہ کرونا وائرس کی عالمی وبا کی وجہ سے پید اہونے والے بحران کی وجہ سے امریکہ اور طالبان کے درمیان دوحہ میں طے پانا والے معاہدے کی طرف توجہ کم ہو گئی ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ دوحہ معاہدے کے بعد 10 مارچ سے بین الافغان امن مذاکرات کاآ غاز ہو نا تھا لیکن اس سے قبل افغان حکومت اور طالبان کے درمیان قیدیوں کا تبادلہ ہو نا تھا لیکن ایسا نا ہونے کی وجہ سے امن عمل میں ایک فوری رکاوٹ پیدا ہو گئی ہے۔
سفیر ملیحہ لودھی کے بقول افغان امن کے لیے تین بڑے چیلنج فوری طور پر درپیش ہیں جن کو حل کرنا ضروری ہے۔ غنی اور عبداللہ کے سیاسی تنازع کی وجہ سے افغانستان میں دو متوازی حکومتیں بن گئی ہیں۔ اس معاملے کو حل کرنا ضروری۔ اس کے ساتھ ان کبےبقول قیدیوں کی رہائی کے معاملے کا جلد حل ہونا بھی ضروری ہے ۔ اس کے ساتھ طالبان کے ساتھ ہونے والے بین الافغان مذاکرات کے ایک قومی وفد کی تشکیل ہونا ابھی باقی ہے۔
افغان صحافی زمریالئی اباسین کا کہنا ہے کہ امریکہ کی حکومت ان معاملات کو حل کروانے کے لیے کابل حکومت پر دباؤ ڈالنے کے مزید اقدامات کر سکتی ہے جو سیکیورٹی اور اقتصادی نوعیت کے ہو سکتے ہیں۔ امریکی حکومت یہ سمجھتی ہے کہ افغان امن عمل کی راہ میں کابل کی قیادت رکاوٹ ہے۔
ان کے بقول افغانستان کی لیے امداد میں فوری طور ایک ارب ڈالرز کی کمی واضح پیغام ہے کہ افغان حکومت بین الافغان مذاکرات کی تیاری جلد از جلد کرے۔