گوانتانامو کو بند کرنے کا معاملہ ’آخری مراحل‘ میں: وائٹ ہاؤس

وائٹ ہاؤس کے پریس سکریٹری، جوش ارنیسٹ نے بدھ کو بتایا کہ گوانتانامو کو بند کرنا اب بھی ترجیح کا معاملہ ہے۔۔۔۔ قیدیوں کو وہاں سے رفتہ رفتہ منتقل کیا جاتا رہا ہے اور اِس تنصیب میں اب 116 قیدی رہ گئے ہیں

وائٹ ہاؤس نے بدھ کے روز اس بات کی تصدیق کی ہے کہ انتظامیہ کی جانب سے کیوبا میں قائم گوانتانامو بے کے امریکی فوجی قیدخانے کو بند کرنے کے منصوبے کا مسودہ ’آخری مراحل‘ میں ہے۔

جب 2009ء میں صدر براک اوباما نے اپنا عہدہ سنبھالا تو اُنھوں نے سمندرپار متنازع قید خانے کو بند کرنے کو اپنی اولین ترجیح قرار دیا تھا۔ لیکن، اس منصوبے کو متعدد بار تاخیر کا سامنا کرنا پڑا ہے، جب کہ کانگریس وہاں کے قیدیوں کو دیگر امریکی قیدخانوں کی طرف منتقل کرنے کی مخالف ہے۔

تاہم، وائٹ ہاؤس کے پریس سکریٹری، جوش ارنیسٹ نے بدھ کو بتایا کہ گوانتانامو کو بند کرنا اب بھی ترجیح کا معاملہ ہے۔
قیدیوں کو وہاں سے رفتہ رفتہ منتقل کیا جاتا رہا ہے اور اِس تنصیب میں اب 116 قیدی رہ گئے ہیں۔

اِس تنصیب کو 11 ستمبر 2001ء کے حملوں کے بعد سابق صدر جارج ڈبلیو بش کی انتظامیہ نے قائم کیا تھا۔ ایک وقت تھا جب گوانتانامو بے میں تقریباً 800 لڑاکا دشمن قید تھے، جنھیں دہشت گردی کے خلاف لڑائی میں پکڑا گیا تھا۔

صدر اوباما نے طویل مدت سے یہ تنصیب قائم رکھی ہے، جس کا فائدہ کم اور نقصان زیادہ لگتا ہے، کہ اس سے دنیا بھر میں امریکی اقدار کو نقصان پہنچ رہا ہے، جب کہ یہ دہشت گرد گروہوں کے لیے بھرتی جاری رکھنے کی دلیل بنی ہوئی ہے۔

گوانتانامو بے کے ریپبلیکن پارٹی کے حامیوں کا کہنا ہے کہ امریکہ کے دشمنوں کو رکھنے اور تفتیش کرنے کا یہ ایک ناگزیر ذریعہ ہے، اور وہ دھیان مبذول کراتے ہیں کہ کیمپ سے رہا کیے جانے والے کچھ قیدیوں نے ایک بار پھر امریکہ کے خلاف ہتھیار اٹھائے ہیں۔

اِسی ہفتے واشنگٹن کے دورے کے دوران، کیوبا کے وزیر خارجہ، برونو روڈرگز نے گوانتانامو بے کا علاقہ کیوبا کو واپس کرنے کا مطالبہ کیا۔