|
وائٹ ہاؤس کے ترجمان برائے قومی سلامتی جان کربی نے کہا ہے کہ اگر حماس اسرائیل کا پیش کردہ جنگ بندی کا منصوبہ تسلیم کرلیتی ہے تو امریکہ کو توقع ہے کہ اسرائیل بھی جنگ بندی کو تسلیم کرلے گا۔
امریکی نشریاتی ادارے ’اے بی سی نیوز‘ پر اتوار کو انٹرویو دیتے ہوئے جان کربی کا کہنا تھا کہ یہ اسرائیل کی پیش کش تھی۔ ہم پوری توقع رکھتے ہیں کہ حماس اسے مان لے گی۔ ہم اس اسرائیلی پیش کش کو پہنچا چکے ہیں۔ اس کے بعد اسرائیل بھی آمادہ ہو جائے گا۔
مصر، قطر اور امریکہ کی جانب سے ثالثی کرنے والے اسرائیل اور حماس دونوں پر غزہ میں جنگ بندی اور یرغمالوں کی رہائی کے لیے جمعے کو صدر بائیڈن کے پیش کردہ منصوبے کو تسلیم کرنے کے لیے زور دے رہے ہیں۔
اسرائیل کے وزیرِ دفاع یوو گیلانت نے اتوار کو ایک بیان میں کہا ہے کہ اسرائیل نے جنگ بندی کے لیے جاری گفتگو کے کسی بھی مرحلے پر یہ تسلیم نہیں کیا کہ غزہ میں حماس کی حکومت برقرار رہے گی۔ ان کے بقول وہ دیگر متبادل کا جائزہ لے رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اسرائیلی حکومت اپنی کارروائیاں جاری رکھتے ہوئے اس کے ساتھ ہی حماس کے سامنے آنے والے متبادل کا بھی جائزہ لے رہی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہم غزہ میں کئی علاقوں کو گھیر کر وہاں سے حماس کے جنگجوؤں کا صفایا کریں گے اور ایسی قوتیں متعارف کرائیں گے جو وہاں حکومت کی تشکیل ممکن بنا سکے جو حماس کی متبادل ہو۔
SEE ALSO: غزہ جنگ: ثالثوں کا اسرائیل اور حماس سے امن معاہدے کو حتمی شکل دینے کا مطالبہگیلانت نے کسی ممکنہ متبادل کے بارے میں وضاحت نہیں کی۔
اسرائیل کے وزیرِ اعظم بن یامین نیتن یاہو نے ہفتے کو ایک بیان میں کہا تھا کہ اسرائیل نے جنگ ختم کرنے کی اپنی شرائط تبدیل نہیں کی ہیں جس میں حماس کی عسکری اور انتظامی صلاحیت کا مکمل خاتمہ، یرغمالوں کی رہائی اور یہ بات یقینی بنانا بھی شامل ہے کہ غزہ سے آئندہ اسرائیل کے لیے کوئی خطرہ پیدا نہ ہو۔
اسرائیلی حکومت میں اندرونی تقسیم
نیتن یاہو کو اپنے دائیں بازو کے منقسم حکومتی اتحاد کی جانب سے حماس اور غزہ سے متعلق منصوبوں پر شدید دباؤ کا سامنا ہے۔
ہفتے کو کابینہ کے دو دائیں بازو کے وزرا نے دھمکی دی تھی کہ اگر نیتن یاہو نے غزہ جنگ کے لیے امریکہ کے صدر بائیڈن کا مجوزہ منصوبہ تسلیم کیا تو وہ ان کی حکومت گرا دیں گے۔
یہ بیان اسرائیلی کابینہ میں شامل وزیر برائے قومی سلامتی اتما بن گوئر اور وزیرِ خزانہ بیزالیل سموترچ کی جانب سے دیا گیا تھا۔ اسرائیل میں قائدِ حزب اختلاف یائر لاپیڈ نے بھی وزرا کے بیانات کی تائید کی ہے۔
یرغمال اسرائیلیوں کے اہل خانہ اسرائیل اور حماس دونوں پر جنگ بندی کے لیے زور دے رہے ہیں۔ ہفتے کو ہزاروں مظاہرین نے یرغمالوں کی بازیابی کے لیے تل ابیب میں مظاہرہ کیا تھا۔
دوسری جانب حماس نے کہا کہ وہ صدر بائیڈن کے پیش کردہ منصوبے کو’مثبت نگاہ‘ سے دیتی ہے۔
جمعے کو صدر بائیڈن نے امن منصوبے سے متعلق کہا تھا کہ اس میں ابتدائی طور پر چھ ہفتے کی جنگ بندی، اسرائیل کی فوج کا جزوی انخلا اور بعض یرغمالوں کی رہائی کی تجاویز شامل ہیں۔ ساتھ ہی ثالثوں کے ذریعے دشمنی کے مستقل خاتمے سے متعلق نکات بھی شامل ہیں۔
SEE ALSO: بائیڈن کاجنگ بندی پر زور،"نیا دن شروع کرنے کا وقت آگیا ہے"
وزیرِ اعظم نیتن یاہو اسرائیل کے مجوزہ منصوبے پر اصرار کررہے ہیں جس میں ہر مرحلے پر شرائط عائد کی گئی ہیں اور اسرائیل کے جنگی اہداف کے حصول کو پیشِ نظر رکھا گیا ہے۔
خیال رہے کہ غزہ میں جنگ کا آغاز حماس کے اسرائیل پر سات اکتوبر 2023 کو حملے سے ہوا تھا۔ اسرائیلی حکام کے مطابق حماس کے حملے میں لگ بھگ 1200 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ جب کہ 250 افراد کو یرغمال بنایا گیا تھا جن میں 100 اب بھی حماس کی تحویل میں ہیں۔
دوسری جانب غزہ میں حماس کے زیرِ انتظام محکمۂ صحت کے مطابق اسرائیلی فوج کی کارروائی میں لگ بھگ 35 ہزار افراد ہلاک ہو چکے ہیں جن میں بچوں اور خواتین کی اکثریت ہے۔
اس خبر کے لیے بعض معلومات ایسوسی ایٹڈ پریس لی گئی ہیں۔