انسداد دہشت گردی، جیبوتی اسٹریٹجک حیثیت کا حامل

فائل

جیبوتی کے ’کیمپ لمونیئر‘ میں امریکہ کے 3000سولین اور فوجی اہل کار تعینات ہیں۔ یہ افریقہ میں امریکہ کا واحد مستقل فوجی اڈا ہے جو جیبوتی کے بین الاقوامی ہوائی اڈے کے ساتھ ہی واقع ہے
افریقہ اور جزیرہ نما عربستان میں انسداد دہشت گردی کے لحاظ سے، مشرقی افریقہ کا یہ چھوٹا سا ملک امریکہ کے لیے ایک خاص اسٹریٹجک حیثیت کا حامل ہے۔

تاہم، متعدد لوگ پریشانی کا اظہار بھی کرتے ہیں کہ شاید امریکی خارجہ پالیسی کےمحور میں کوئی تبدیلی آرہی ہے۔ بقول ایسے لوگوں کے، اِس کے باعث، افریقہ کی فوجی سرگرمیوں میں اضافہ آ سکتا ہے۔

’وائس آف امریکہ‘ کی کیرولین پروستی نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ جغرافیائی اعتبار سے، جیبوتی سونے کی کان کا درجہ رکھتا ہے۔ اُس کی مصروف بندرگاہ کو دیکھتے ہوئے، قرن افریقہ میں اِسے حکمت عملی والا ایک خاص مقام حاصل ہے۔

یمن سے یہ عدن کی خلیج کے پار واقع ہے، جس کی سرحدین اِریٹریا، ایتھیوپیا اور صومالیہ کے ساتھ جا کر ملتی ہیں، جس کے باعث، انسداد دہشت گردی کی کارروائیوں کے اعتبار سے جیبوتی امریکہ کا ایک ’پارٹنر‘ ہے۔

جیبوتی کے ’کیمپ لمونیئر‘ میں امریکہ کے 3000سولین اور فوجی اہل کار تعینات ہیں۔ یہ افریقہ میں امریکہ کا واحد مستقل فوجی اڈا ہے جو جیبوتی کے بین الاقوامی ہوائی اڈے کے ساتھ ہی واقع ہے۔ امریکہ نے یہ اڈا پٹے پر حاصل کیا ہوا ہے، جس کے لیے وہ جیبوتی کو سالانہ تین کروڑ 80 لاکھ ڈالر ادا کرتا ہے۔

جو سیگل ’افریقہ سینٹر فور اسٹریٹجک اسٹڈیز‘ کے ادارے میں تحقیق سے وابستہ سربراہ ہیں۔ بقول اُن کے، ’امریکہ نے یہ تخمینہ لگا لیا ہے کہ ایسے خطے میں جہاں بہت سے ملک غیر مستحکم ہیں، بہت ہی اسٹریٹجک مقام پر واقع اِس نسبتاً مستحکم ملک میں پیسے لگانا، دونوں، مستقبل قریب اور طویل مدت میں سودمند ثابت ہوگا‘۔

کیمپ لیمونیئر کو قرنِ افریقہ اور جزیرہ نما عربستان میں انسداد دہشت گردی کے مرکز کی حیثیت حاصل ہے۔ حالیہ دِنوں تک یہاں سے ہی القاعدہ کے مشتبہ جنگجوؤں کے خلاف کارروائی کے لیے امریکی ڈرون حملے کیے جاتے رہے ہیں۔

بین فریڈ منسا ’ہوورڈ یونیورسٹی‘ میں ’بین الاقوامی تعلقات اور حکومت‘ کا مضمون پڑھاتے ہیں۔
بقول اُن کے، دہشت گردی کا سلسلہ جاری ہے۔ جیسا کہ امریکہ کہتا آیا ہے، بہتر یہی ہوگا کہ اِس سے ملک سے باہر نمٹا جائے، بجائے اِس کے کہ انتظار کیا جائے اور اپنے ملک میں اس سے نبردآزما ہوا جائے۔

تاہم، جیبوتی کے شہریوں نے اُس وقت شکایت درج کرائی جب گذشتہ تین برسوں کے دوران پانچ عدد ڈرون طیارے تباہ ہوئے، جب میں سے ایک جیبوتی شہر سے محض ڈیڑھ کلومیٹر دور گر کر تباہ ہوا۔ اِسی کے باعث، امریکہ نے ڈرون طیاروں کے بیڑے کو ہوائی اڈے سے 13 کلومیٹر دور، ایک دوسرے ایئرپورٹ کی طرف منتقل کیا۔

کیرولین پریسوتی کا کہنا ہے کہ امریکہ کے لیے، یہ توازن کا معاملہ ہے۔ انسانی حقوق سے متعلق جیبوتی کا ریکارڈ قابل تقلید نہیں رہا۔

’فریڈم ہاؤس‘ حقوقِ انسانی سے متعلق رپورٹیں تیار کرنے والا ادارہ ہے، جس نے اپنی سالانہ رپورٹ میں، جیبوتی کو انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرنے کے حوالے سے، ’مبرا‘ ملک قرار نہیں دیا۔

رپورٹ میں صدر عمر گئیلا پر شہری آزادیوں پر قدغنیں لگانے کا الزام لگایا گیا ہے، اور ملک کی سیاسی حقوق کی سطح کو نچلے ترین درجے پر دکھایا گیا ہے۔

ابایومی عزیکیوے ایک بین الافریقہ خبر رساں ادارے کے ایڈیٹر ہیں۔ وہ امریکہ کے فوجی اضافے کے یکسر مخالف ہیں۔ اسکائیپ پر دیے گئے ایک انٹرویو میں، اُنھوں نے بتایا کہ معاملہ صرف دہشت گردی تک محدود نہیں ہے۔

افریقہ میں اپنی موجودگی کے اعادے کے طور پر، آئندہ 25 برسوں کے دوران، ’کیمپ کیمونیئر‘ کو وسعت دینے اور اس کی تعمیرِ نو اور تزئیں پر پینٹاگان ایک ارب ڈالر سے زائد رقوم خرچ کرنے کا خواہاں ہے۔