فلاڈیلفیا: ہیلری کلنٹن پہلی خاتون صدارتی امیدوار نامزد

منگل کی شام پنسلنوانیا کے شہر، فلاڈیلفیا میں ڈیموکریٹک قومی ڈیلیگیٹس کے ’ووٹ کاؤنٹ‘ میں ہیلری کلنٹن کو 2842 اور سینیٹر برنی سینڈرز کو 1865 ووٹ پڑے اور یوں، کلنٹن امریکہ کی پہلی خاتون امیدوار بن گئی ہیں، جنھیں پارٹی نے صدارتی امیدوار نامزد کیا ہے۔

مختلف ریاستوں سے تعلق رکھنے والے ڈیلیگیٹس نے ’رول کال‘ کے طریقہٴ کار کے تحت بلند آواز میں ووٹ دیے، ایسے میں جب کنوینشن ہال میں اپنی بیگم کے ہمراہ، سینیٹر برنی سینڈرز نہ صرف موجود تھے بلکہ رول کال کے اختتام پر، سینڈرز نے تجویز دی کہ ’’ضابطہٴ کار کو بالائے طاق رکھ کر اور مزید وقت ضائع کیے بغیر، ہیلری کلنٹن کی نامزدگی کا اعلان کیا جائے۔‘‘

امریکی صدارتی نامزدگی کی کنوینشن اور اسٹیٹ ڈیلیگیٹس کی قدیم روایت کو مد منظر رکھتے ہوئے، فلاڈیلفیا میں ڈیموکریٹک پارٹی کا چار سالہ اجتماع جاری رہا، جس میں باضابطہ رائے دہی کے ذریعے، کلنٹن کو نامزد کیا گیا۔ ذرائع ابلاغ پر براہ راست دکھائی جانے والی اس رول کال کارروائی میں دلچسپی رکھنے والوں کی نگاہیں امریکی سیاسی منظرنامے پر لگی رہیں۔

پیر کی شام گئے کنوینشن کے پہلے روز اپنے خطاب میں، انتخابی مہم کے دوران کئی ماہ تک کلنٹن کے مدِ مقابل رہنے والے ورمونٹ کے سینیٹر برنی سینڈرز نے اپنے حامیوں سے کہا کہ اُنھیں ووٹ دیا جائے، ’’لیکن، میں ہیلری کے ساتھ ہی کھڑا ہوں‘‘۔ اپنی تقریر میں اُنھوں نے جوش و جذبے کا مظاہرہ کرتے ہوئے کلنٹن کی حمایت کا اعلان کیا، جس سے یہ بات واضح ہوئی کہ پارٹی متحد ہے۔

ڈیموکریٹک پارٹی کی صدارتی امیدوار ہیلری کلنٹن کا ری پبلیکن پارٹی کے امیدوار ڈونالڈ ٹرمپ سے مقابلہ ہے۔ جائیداد کے نامور ارب پتی کاروباری فرد، ٹرمپ کو گذشتہ ہفتے اُن کی پارٹی نے باضابطہ طور پر امیدوار نامزد کیا۔

پیر کی شام ہیلری کی نامزدگی پختہ ہونے کے بعد، اُن کے شوہر بِل کلنٹن، جو 1990ء کی دہائی میں امریکہ کی قیادت کرتے رہے ہیں، منگل کی شام گئے کنوینشن سے خطاب کریں گے جس میں وہ امریکیوں کو بتائیں گے کہ آٹھ نومبر کے قومی انتخاب میں ہیلری کو ووٹ دینا کیوں ضروری ہے۔

اپنی بیوی کی حمایت کا حصول پیچیدہ معاملہ ہے؛ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ امریکی ڈیموکریٹک پارٹی کا ترقی پسند حلقہ جو سینڈرز کا حامی ہے وہ بیالیسویں صدر کی کامیابیوں کو نہیں مانتا، جن میں آزاد تجارت کی حمایت اور سنگین جرائم کے سلسلے میں نظام انصاف میں اصلاحات کا معاملہ شامل ہے، جب کہ نوے کے عشرے میں تشکیل پانے والی پالیسیوں کے نتیجے میں متعدد افراد، جن میں خاص طور پر نسلی اقلیتیں شامل ہیں، بڑے عرصے تک قید و بند کاٹتی رہیں۔

ہیلری کلنٹن کو ٹرمپ کے ساتھ کانٹے کے مقابلے کا سامنا ہوگا۔ رائے عامہ کی کئی جائزہ رپورٹوں سے پتا چلتا ہے کہ فی الوقت ٹرمپ کو اُن کے مقابلے میں تھوڑی سی سبقت حاصل ہے، جس کا سبب ری پبلیکن کے حالیہ کنوینشن کے دوران چار راتوں کی تقاریر میں کلنٹن کو ہدفِ تنقید بنایا جانا بتایا جاتا ہے۔

اور، اِس ہفتے، ڈیموکریٹس کی باری ہے۔ اُن کے کنوینشن میں، بغیر وقت ضائع کیے، پیر کے روز ٹرمپ کو ہدفِ تنقید بنایا گیا۔ خطاب کرنے والوں نے اُن پر ’’غیر حساس، اور میرا کاروبار سب سے پہلے‘‘ کا انداز اپنانے کا الزام دیا گیا؛ اور امریکی سربراہ کے طور پر اُن کے ’’غیر موزون ہونے‘‘ کے دعوے کیے گئے۔

خاتونِ اول مشیل اوباما نے ٹرمپ کو ہدفِ تنقید بناتے ہوئے کہا کہ ’’میں آج یہاں کھڑی ہوں چونکہ اس انتخاب میں صرف ایک ہی شخص ہے جن پر مجھے اعتماد ہے کہ وہ یہ ذمہ داری نبھا سکتی ہیں؛ میرے خیال میں صرف ایک ہی شخص ہے جو امریکہ کی صدر بننے کی لائق ہیں، اور وہ ہیں میری دوست، ہیلری کلنٹن‘‘۔

Your browser doesn’t support HTML5

ہیلری کی نامزدگی پر امریکی ووٹروں کا ردعمل

نام لیے بغیر، خاتونِ اول نے ٹرمپ کی انتخابی مہم کے نعرے کے لیے ناپسندیدگی کا اظہار کیا: ’میک امریکہ گریٹ اگین‘۔

اُن کے الفاظ میں: ’’کوئی بھی کبھی یہ نہ کہے کہ ملک عظیم نہیں، یا یہ کہ ہمیں اسے پھر سے عظیم بنانے کی ضرورت ہے۔۔ کیونکہ، اِس وقت کرہٴ ارض پر ہمارا ملک ہی عظیم ترین ہے‘‘۔

سینڈرز نے اپنے خطاب میں کہا کہ ’’لگی لپٹی نہ رکھنے والا کوئی بھی مبصر یہی کہے گا کہ خیالات اور قیادت کے اعتبار سے ہیلری کلنٹن کو ہی امریکہ کا اگلا صدر ہونا چاہیئے۔ اِن کے مقابلے کا کوئی دوسرا امیدوار نہیں‘‘۔