امریکہ کے قائم مقام وزیر دفاع کرسٹوفر ملر نے جمعے کے روز کہا کہ امریکہ نے عراق میں اپنے فوجیوں کی تعداد گھٹا کر 2500 کر دی ہے۔ یہ وہ ہدف ہے جو ٹرمپ انتظامیہ نے گزشتہ سال کے آخر میں عراق کے لیے مقرر کیا تھا۔
صدر ٹرمپ کے عہدے کی معیاد ختم ہونے سے پانچ روز قبل ملر نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ عراق میں امریکی فوجیوں کی تعداد میں کمی اس بات کی نشاندہی ہے کہ عراقی سیکیورٹی فورسز کی اہلیت میں اضافہ ہو چکا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم نے بہت پہلے یہ طے کیا تھا کہ جب عراقی افواج آئی ایس آئی ایس کے خلاف لڑنے کے قابل ہو جائیں گی تو ہم وہاں اپنی فوجی تعداد میں کمی کر دیں گے۔
انہوں نے کہا کہ عراق میں ہماری فوجی قوت میں کمی اس بات کا ثبوت ہے کہ عراقی فورسز میں سیکیورٹی کے معاملے میں حقیقی بہتری آئی ہے۔
قائم مقام وزیر دفاع کاکہنا تھا کہ عراق میں امریکی فوجیوں کی تعداد میں کمی امریکی پالیسی میں تبدیلی نہیں ہے، بلکہ اس کا تعلق مشرق وسطیٰ کے علاقے میں بڑی فوجی کارروائیوں میں امریکی فوج کی شمولیت میں کمی لانے کے ہمارے منصوبوں سے ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ داعش کی شکست یقینی بنانے کے لیے امریکی اور اتحادی افواج عراق میں مقیم رہیں گی۔
انہوں نے کہا کہ امریکی اور عراقی حکومت اس بات پر متفق ہیں کہ داعش بدستور ایک خطرہ ہے جس کی وجہ سے امریکی اور اتحادی افواج کی موجودگی ضروری ہے۔
پنٹاگان کے اعداد و شمار کے مطابق سن 2003 سے امریکی اتحاد کے تحت عراق میں صدام حسین کی حکومت کے خاتمے کے لیے کیے جانے والے حملے کے بعد سے اب تک 4500 سے زیادہ امریکی فوجی مارے جا چکے ہیں، جب کہ زخمی ہونے والوں کی تعداد 32000 سے زیادہ ہے۔
قائم مقام وزیر دفاع ملر نے یہ بھی بتایا کہ افغانستان میں بھی امریکی فوجیوں کی تعداد گھٹا کر 2500 کر دی گئی ہے۔