امریکہ کی عدالت نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی پناہ گزینوں سے متعلق پالیسی کو غیر قانونی قرار دے دیا۔ اس سے قبل ایک اور عدالت صدر کی اس پالیسی کو معطل بھی کر چکی ہے۔
ڈسٹرکٹ آف کولمبیا کے وفاقی جج رینڈولف موس نے اپنے حکم میں کہا ہے کہ امریکہ میں داخل ہونے والے پناہ گزینوں کی درخواستیں مسترد کرنا امیگریشن اور شہریت ایکٹ کی خلاف ورزی ہے۔
اس سے قبل سان فرانسسکو کے ڈسٹرکٹ جج رچرڈ سی برگ نے حکومت کی اس پالیسی کو معطل کر دیا تھا۔ جس کے تحت پناہ گزینوں کی درخواستوں کا فیصلہ ہونے تک ان کے امریکہ میں داخلے پر پابندی لگا دی گئی تھی۔
ٹرمپ انتظامیہ نے یہ پالیسی نومبر 2018 میں لاگو کی تھی جس کا مقصد بڑی تعداد میں تارکین وطن کی امریکہ آمد کو روکنا تھا۔ امیگریشن قوانین میں سختی 2016 کے صدارتی انتخاب میں ڈونلڈ ٹرمپ کے انتخابی وعدوں میں سے ایک تھا۔ اور اسی بنیاد پر صدر ٹرمپ 2020 کا صدارتی الیکشن لڑنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
انتظامیہ کے اس اقدام کو ہنڈارس، سلواڈور، گوئٹے مالا اور نائیکریگا سے تعلق رکھنے والے 19 تارکین وطن نے امریکی عدالت میں چیلنج کیا تھا۔ جس میں اس قانون کو بنیاد بنایا گیا تھا جو قانونی طریقے سے امریکہ میں داخل ہونے والے افراد کو پناہ کی درخواست دینے کی اجازت دیتا ہے۔
تارکین وطن کے حقوق کے لیے سرگرم تنظیموں نے امریکی عدالت کے اس فیصلے کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ ٹرمپ انتظامیہ کی شکست ہے۔ عدالت کے اس فیصلے سے بہت سے انسانی جانیں بچ گئی ہیں۔
خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق امریکی محکمہ انصاف نے تاحال اس فیصلے سے متعلق کوئی بیان جاری نہیں کیا۔ تاہم ٹرمپ انتظامیہ کا یہ موقف رہا ہے کہ پناہ گزینوں کی بہت بڑی تعداد دستاویزی جعلسازی کرتی ہے جس کی حوصلہ شکنی ضروری ہے۔
امریکی حکام کے پاس اس وقت پناہ گزینوں کی لاکھوں درخواستیں زیر التوا ہیں۔ ان میں بچے بھی شامل ہیں جنہیں زیادہ دیر تک حراست میں رکھنا غیر قانونی ہے اور اسی لیے امریکی حکام نے انہیں رہا کر کے میکسیکو میں ہی درخواستوں کے فیصلے کا انتظار کرنے کا کہا تھا۔
امریکی عدالتیں حالیہ چند ماہ کے دوران صدر ٹرمپ کے امیگریشن سے متعلق کئی حکم ناموں اور اقدامات کو معطل کر چکی ہیں جس پر صدر ٹرمپ خاصے برہم ہیں۔