چین میں امریکہ کےنئے سفیر نے کہا ہے کہ چین کی طرف سے تجارت کے رازوں کی آن لائن چوری امریکی قومی سلامتی کے لیے ایک ’بڑے خطرے‘ کی مانند ہے۔
مارچ میں سفارتی عہدہ سنبھالنے کے بعد، میکس بوکس کا بدھ کے روز کا یہ بیان امریکہ چین تعلقات کے ضمن میں اُن کے پہلے وزنی کلمات ہیں۔
کاروباری شخصیات سے خطاب میں، بوکس نے کہا کہ ’سائبر اسپیس‘ کے شعبے میں قابل قبول رویے کے ضمن میں امریکہ کی چین کے ساتھ ’شدید نااتفاقی‘ ہے۔
بقول اُن کے، چین کے ’ریاستی ایکٹرز‘ کی جانب سے سائبر کی مدد سےتجارت کی خفیہ معلومات کی چوری، ہماری معیشت اور یوں، ہماری قومی سلامتی کے لیے ایک اہم خطرہ بن گئی ہے۔ اس کی مجرمانہ نوعیت کو مد نظر رکھا جائے تو یہ چین کی طرف سے ’ورلڈ ٹریڈ آرگینائزیشن‘ کو کرائی گئی یقین دہانی کے برخلاف ہے۔حقیقی دنیا میں جب کبھی کوئی جرم سرزد ہوتا ہے تو ہم خاموش نہیں رہتے۔ اس لیے، جب یہ سائبر اسپیس میں واقع ہو تو ہم کیسے خاموش رہ سکتے ہیں؟‘
بوکس امریکہ کے ایک سابق سینئر قانون ساز رہے ہیں۔ اُنھوں نے کہا کہ امریکہ اپنے سفارتی اور قانونی ذرائع کا استعمال جاری رکھے گا، تاکہ چین کو مجبور کیا جائے کہ وہ اس چوری کو بند کرے۔
اُن کا یہ بیان ایسے وقت سامنے آیا ہے جب امریکہ نے پانچ چینی اہل کاروں کو امریکی کمپنیوں کے خلاف معاشی جاسوسی کا الزام عائد کیا ہے۔
چین ان فوجداری الزامات کو مسترد کرتا ہے جو امریکہ نے پہلی بار کسی غیر ملکی طاقت کے خلاف لگائے ہیں، جن میں سائبر کے ذریعے امریکی کاروباری اداروں کو ہدف بنایا گیا ہے۔
چین نے اس کا جواب یوں دیا کہ سائبر جاسوسی کے معاملے پر امریکہ کے ساتھ گفتگو کے باقاعدہ سلسلےمیں شمولیت سے علیحدہ ہوگیا ہے۔ مزیر یہ کہ چین سرکاری تحویل میں کام کرنے والے اداروں کی حوصلہ شکنی کر رہا ہے کہ وہ امریکہ کے تیار کردہ ’ہارڈ ویئر‘ کی خریداری نہ کریں۔
امریکہ چین تعلقات میں، چین کی طرف سے کی جانے والی سائبر چوری ایک اہم خلش کا درجہ اختیار کر چکی ہے، جن کی معیشتیں دنیا میں، بالترتیب، پہلی اور دوسری سب سے بڑی معیشتوں کا درجہ رکھتی ہیں۔