بھارتی انٹیلی جنس کے سابق عہدہ دار پرایک امریکی شہری کے قتل کی سازش کے الزام میں فرد جرم عائد

سکھس فار جسٹس کی جانب سے 2020 میں نیو یارک میں احتجاجی مظاہرہ۔فائل فوٹو

امریکہ کے محکمہ انصاف نے جمعرات کو ایک سابق بھارتی انٹیلیجنس افسر پر ایک سکھ علیحدگی پسند کو قتل کرنے کی ہدایت دینے کے الزام میں نیویارک شہر میں فرد جرم عائد کی ہے۔ ایف بی آئی نے اس طرح کے انتقامی کارروائی کے خلاف انتباہ کیا ہے جس کا مقصد امریکی شہری کو نشانہ بنانا ہے۔

جمعرات کو وکاس یادو کے خلاف امریکی محکمہ انصاف کی فرد جرم میں یادوو کا تذکرہ بھارت کی انٹیلیجنس کے ریسرچ اینڈ اینالیسس ونگ کے ایک سابق افسر کے طور پر کیا گیا ہے۔ جن پر ایک امریکی شہری کو قتل کرنے کی ناکام سازش کے الزام میں کرائے کے قاتل ہائر کرنے اور منی لانڈرنگ کے الزامات فائل کرنے کا اعلان کیا ہے۔

واشنگٹن نے الزام لگایا ہے کہ بھارتی ایجنٹ، سکھ علیحدگی پسند رہنما گرپتونت سنگھ پنوں کے خلاف قتل کی کوشش میں ملوث تھے، جو امریکہ اورکینیڈا کی دوہری شہریت رکھتےہیں۔

یادیو پر فرد جرم سدرن ڈسٹرکٹ آف نیویارک میں عائد کی گئی۔ سازش میں ملوث یادو کے مبینہ ساتھی 53 سالہ نکھل گپتا پر ہہلے ہی یہ الزمات عائد کیے جا چکے ہیں اور انہیں کسی دوسرے ملک سے گرفتار کر کے امریکہ لایا جا چکا ہے۔

یادو اب بھی مفرور ہیں۔ اور ایف بی آئی کی طرف سے’مطلوبہ‘ کے پوسٹر میں بھارتی حکومت کے ملازم وکاش یادو کے لیے کہا گیا ہے کہ ہے وہ ایک امریکی کو قتل کرنے کی ناکام سازش کے سلسلے میں مجرمانہ الزامات میں مطلوب ہیں۔

ایف بی آئی کا پوسٹر

ایف بی آئی کے ڈائریکٹر کرسٹوفر رے کی جانب سے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ بھارتی حکومت کے اہل کار نے امریکی شہری کو فرسٹ امینڈمینٹ کے تحت حاصل حقوق استعمال کرنے کی وجہ سے انہیں امریکی سر زمین پر نشانہ بنانے کی کوشش کی۔ ان کے بقول ایف بی آئی اس طرح کے پرتشدد الزامات کو کسی طور قبول نہیں کرے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ وہ اپنے شراکت داروں کے ساتھ مل کر ایسے غیر ملکیوں کا پتہ لگائیں گے، ان کی سرگرمیوں کو روکیں گے اور ان کو جوابدہ ٹھہرائیں گے جو بین الاقوامی سطح پر جابرانہ اقدامات میں ملوث ہیں۔

اس سے قبل کی کارروائی

اس سال ستمبر میں نیویارک کےسدرن ڈسٹرک کورٹ نے خالصتان تحریک کے حامی علیحدگی پسند سکھ رہنما گرپتونت سکھ کے قتل کی سازش کے الزام میں دائر ایک مقدمے میں بھارتی حکومت کے قومی سلامتی کی مشیر اجیت ڈوول، خفیہ ادارے ’را‘ کے سابق سربراہ سامنت گویل، را کے ایجنٹ وکرم یادو اور بھارتی بزنس مین نکھل گپتا سے 21 روز میں جواب طلب کیا تھا۔

گرپتونت سنگھ پنوں۔ فائل فوٹو۔ اے پی

جس کے بعد بھارت کے سیکریٹری خارجہ وکرم مسری نے امریکی عدالت کے سمن کے بارے میں سوال پر جواب دیتے ہوئے کہا تھا کہ یہ معاملہ سامنے آتے ہی اقدامات کا آغاز کر دیا گیا تھا اور ایک اعلیٰ سطح کی کمیٹی بنا دی گئی ہے۔

گرپتونت سنگھ پنوں سکھوں کی علیحدہ ریاست خالصتان بنانے کی حامی تنظیم ’سکھس فور جسٹس‘ کے سربراہ ہیں۔ بھارت نے 2020 میں نفرت پھیلانے کے الزامات میں اس تنظیم پر پابندی عائد کردی تھی۔

پنوں امریکہ اور کینیڈا کی دہری شہریت رکھتے ہیں۔ بھارت نے انہیں غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے الزام میں مطلوبہ افراد کی فہرست میں بھی شامل کر رکھا ہے۔

گزشہ برس چیک ری پبلکن نے نیویارک میں گرپتونت سنگھ پنوں کو قتل کرنے کی سازش میں ملوث ہونے کے الزام میں امریکہ کی درخواست پر بھارتی بزنس مین نکھل گپتا کو حراست میں لیا تھا۔ گپتا کو رواں برس جون میں امریکہ منتقل کیا گیا تھا۔

بھارت گرپتونت سنگھ کے قتل کی سازش میں اپنے انٹیلیجینس حکام کے ملوث ہونے کی تردید کرتا آیا ہے اور ایسی رپورٹس کو ’غیر ضروری اور بلاجواز‘ قرار دیتا رہا ہے۔

SEE ALSO: بھارت کا بیرون ملک قتل کی سازشوں سے انکار، 20 ہلاکتیں پاکستان میں ہوئیں، میڈیا رپورٹس

الزامات کا آغاز کینیڈا سے ہوا

بیرون ملک ہونے والی ہلاکتوں میں 'را' کے ملوث ہونے کے الزامات پہلی بار پچھلے سال ستمبر میں کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو کے اس اعلان کے بعد سامنے آئے تھے کہ کینیڈا سرگرمی سے ان قابل اعتبار الزامات پر کام کر رہا ہے جن کے مطابق کینیڈا کے ایک شہری ہردیپ سنگھ نجر کے قتل کا تعلق ممکنہ طور پر بھارتی خفیہ ایجنٹوں سے تھا۔

کینیڈا کے علاقے برٹش کولمبیا میں ایک سکھ گرودوارے کے باہر دو نقاب پوش مسلح افراد نے ہردیپ سنگھ نجر کو کار میں گولیاں مار کر ہلاک کر دیا تھا۔ نجر ایک سرگرم سکھ کارکن تھے جنہیں بھارت نے 2020 میں دہشت گرد قرار دیا تھا۔

ٹروڈو کے اس بیان کے بعد دونوں ملکوں کے تعلقات میں تناؤ پیدا ہوا اور بھارت نے قتل کے الزام کو مضحکہ خیز قرار دے کر مسترد کر دیا تھا۔

اس رپورٹ کے لیے کچھ معلومات رائٹرز اور اے پی سے لی گئی ہیں