افغانستان کے لیے امریکہ کے خصوصی سفارت کار زلمے خلیل زاد نے جمعرات کو بند کمرے میں ایوان نمائندگان کی خارجہ امور کی کمیٹی کے ارکان کو طالبان کے ساتھ مذاکرات معطل ہونے کے سلسلے میں بریفنگ دی اور ان کے سوالوں کے جواب دیے۔
کمیٹی کے چیئرمین کانگریس مین ایلیٹ اینگل نے گزشتہ ہفتے زلمے خلیل زاد کو سمن جاری کرتے ہوئے کمیٹی کے سامنے طلب کیا تھا۔
بدھ کو اینگل کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہا گیا تھا کہ زلمے خلیل زاد امریکی محکمہ خارجہ میں اس موضوع پر کئی روز تک جاری رہنے والے اجلاس میں شرکت کے بعد جمعرات کو بند کمرے کے اجلاس میں کمیٹی کو بریفنگ دیں گے اور ارکان کے سوالوں کے جواب دیں گے۔
Your browser doesn’t support HTML5
اجلاس کے بعد وائس آف امریکہ کے ایک سوال کے جواب میں کمیٹی کے چیئرمین ایلیٹ اینگل نے کہا کہ اب صدر کو فیصلہ کرنا ہے کہ وہ آگے کیا کرنا چاہتے ہیں۔
ان کے بقول ’’میرا خیال ہے کہ ابھی بہت سے سوالات کے جواب آنا باقی ہیں۔ ہم انتظار کر رہے ہیں کہ صدر کوئی فیصلہ کریں۔ میری رائے میں صدر کو یہ فیصلہ جلد کرنا چاہیے۔ ‘‘
انہوں نے مزید کہا کہ حکومت کو طے کرنا ہے کہ وہ کیسے افغان مذاکرات کے معاملے پر کانگریس کے ساتھ مل کر کام کر سکتی ہے۔ تاہم ہم نے بند کمرے میں اس لیے اجلاس بلایا کیونکہ حکومت کو ہمارے ساتھ کام کرنے میں مشکلات کا سامنا تھا۔
تاہم بند کمرے کے اجلاس کے بعد جنوبی ایشیا کے لیے قائم مقام معاون وزیر خارجہ ایلس ویلز کمیٹی کے سامنے پیش ہوئیں اور انہوں نے مختلف سوالات کے جواب دیے۔
Your browser doesn’t support HTML5
ایلس ویلز نے ارکان کانگریس کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات منقطع کرنے کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ گزشتہ ایک برس کے دوران مذاکرات کے جو نو دور ہوئے ہیں، طالبان کا رویہ ان مذاکرات کے طرز عمل سے مطابقت نہیں رکھتا تھا۔
امریکی صدر ٹرمپ نے گزشتہ ہفتے اچانک یہ اعلان کر کے لوگوں کو حیرت میں ڈال دیا تھا کہ انہوں نے طالبان اور افغان صدر اشرف غنی کے ساتھ کیمپ ڈیوڈ میں الگ الگ ہونے والی خفیہ بات چیت کو منسوخ کر دیا ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ انہوں نے طالبان کی طرف سے حملے جاری رکھنے کے اقدام کے باعث یہ مذاکرات مکمل طور پر بند کر دیے ہیں۔ ان حملوں میں ایک امریکی فوجی بھی مارا گیا تھا۔
اس سے قبل زلمے خلیل زاد نے قطر کے شہر دوحہ میں طالبان کے ساتھ بات چیت کے 9 دور مکمل کیے اور صدر ٹرمپ کی طرف سے مزید مذاکرات مکمل طور پر ختم کیے جانے کے اعلان سے پہلے انہوں نے کہا تھا کہ وہ طالبان کے ساتھ حتمی سمجھوتے کے بالکل قریب پہنچ گئے ہیں۔
اس سمجھوتے کے مطابق امریکہ نے افغانستان کے پانچ فوجی اڈوں سے 5000 فوجیوں کو واپس بلانے پر اتفاق کیا تھا۔ اس کے بدلے میں طالبان نے وعدہ کیا تھا کہ وہ القاعدہ سے رابطے ختم کر دیں گے اور یہ ضمانت دیں گے کہ افغانستان کی سر زمین امریکہ اور اس کے اتحادیوں پر حملوں کے لیے استعمال نہیں کی جائے گی۔
خیال کیا جاتا ہے کہ امریکہ اور طالبان کے درمیان یہ سمجھوتہ طے ہو جانے کی صورت میں طالبان اور افغان حکومت کے درمیان براہ راست مذاکرات کی راہ ہموار ہو جاتی۔