امریکہ کے افغانستان کے لیے خصوصی نمائندے تھامس ویسٹ نے دعوی کیا ہے کہ القاعدہ کے سابق رہنما ایمن الظواہری کی ڈرون حملے میں ہلاکت سے قبل، انہیں طالبان کے زیر کنٹرول دارالحکومت کابل میں آزادی حاصل تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکہ کو افغانستان اور برصغیر پاک و ہند میں القاعدہ، جیش محمد، لشکر طیبہ، انصار اللہ اور کئی دیگر دہشت گرد گروہوں سے متعلق گہری تشویش ہے۔
امریکہ کے خصوصی نمائندہ برائے افغانستان تھامس ویسٹ نے واشنگٹن کے ایک تھنک ٹینک کی تقریب میں کہا کہ الظواہری بلاشبہ امریکہ کے لیے خطرہ تھا اور اسے کابل میں کام کرنے کی زیادہ آزادی تھی بہ نسبت اس جگہ کے جہاں سے وہ آیا تھا۔
یاد رہے کہ القاعدہ کے رہنما کو 31 جولائی کو کابل کے مرکز میں ایک گھر پر ایک ڈرون حملے میں نشانہ بنایا گیا۔ طالبان حکام نے ان کی ہلاکت کی تصدیق نہیں کی ہے۔
افغان دارالحکومت میں کیے گئے ڈرون حملے کے بعد امریکہ اور طالبان دونوں نے ایک دوسرے پر فروری 2020 کے امریکہ اور طالبان کے درمیان ہونے والے معاہدے کی خلاف ورزی کا الزام لگایا ہے۔ دوحہ معاہد ے کے نام سے جانے والے اس معاہدے کے تحت طالبان امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے خلاف اپنے کنٹرول والے علاقوں سے دہشت گردی کے خطرات کو روکنے کے پابند ہیں ۔
Your browser doesn’t support HTML5
بدھ کو سینٹر فار انٹرنیشنل اینڈ اسٹریٹجک اسٹڈیز میں اپنے ریمارکس میں امریکہ کے خصوصی نمائندے نے کہا کہ امریکہ کو افغانستان میں سرگرم کئی دیگر دہشت گرد گروہوں پر گہری تشویش ہے۔
" ہمیں برصغیر پاک و ہند میں القاعدہ، جیش محمد، لشکر طیبہ، انصار اللہ اور کئی دہشت گرد گروپوں کے بارے میں خدشات ہیں۔"
انہوں نے کہا کہ ان گروپوں کی افغانستان میں اب بھی فعال موجودگی ہے جس پر امریکہ کو گہری تشویش ہے۔
پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف نے گزشتہ ہفتے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں طالبان کے کنٹرول والے افغانستان میں دہشت گرد گروپوں کی موجودگی کے بارے میں ایسی ہی تشویش کا اظہار کیا تھا۔
Your browser doesn’t support HTML5
شہباز شریف کے خدشات کے اظہار کو فوری طور پر مسترد کرتے ہوئے طالبان نے ایک بیان میں کہا تھا کہ وہ افغان سرزمین کو کسی بھی ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے۔
طالبان کی انسداد دہشت گردی کے وعدوں کے متعلق خدشات کے باوجود امریکہ نے گروپ کے ساتھ رابطے میں رہنے کا انتخاب کیا ہے۔
اس سلسلے میں تھامس ویسٹ نے کہا، ’’ہم (الظواہری کو نشانہ بنانے والے) حملے کے بعد سے طالبان رہنماؤں کے ساتھ رابطے میں ہیں۔ اور واضح رہے کہ ہم اس واقعے کے بعد بھی دہشت گردی کے خدشات کے حوالے سے طالبان کے ساتھ حقیقت پسندانہ طور پر بات چیت کرنے کے لیے تیار ہیں۔‘‘
داعش کے 2000 جنگجو
دریں اثنا، اقوام متحدہ نے منگل کو خبردار کی تھا کہ طالبان افغانستان میں سلامتی لانے میں ناکام ہو رہے ہیں کیونکہ ملک میں داعش کی خراساں شاخ جیسے دہشت گرد گروپ افغانوں کو ہلاک کر رہے ہیں۔
عالمی ادارے کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال طالبان کے اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد سے کم از کم 700 افغان مسلح تنازعات میں ہلاک ہو ئے تھے جن میں زیادہ تر داعش کی خراساں شاخ کے حملوں میں مارے گئے۔
گزشتہ سال سابق افغان حکومت کے گرنے کے بعد بدامنی کے حالات میں ملک بھر میں جیلوں کو کھول دیا گیا تھا اور داعش خراساں کے جنگجوؤں سمیت ہزاروں قیدیوں کو آزاد کر دیا گیا تھا۔
Your browser doesn’t support HTML5
تھنک ٹینک میں بات کرتے ہوئے تھامس ویسٹ نے کہا کہ جیل کا ایک بڑا واقعہ ہوا تھا۔ تاہم انہوں نے کہا کہ یہ واضح نہیں کہ طالبان کے کن لوگوں نے قیدیوں کو رہا کیا اور کیا وہ جانتے تھے کہ قیدی کون تھے۔
لیکن ویسٹ نے کہا کہ داعش خراساں کے سب سے زیادہ اہم ترین تربیت یافتہ جنگجوؤں کو آزاد کیا گیا جن کی تعداد تقریباً 2,000 تھی ۔
ان میں سے کچھ لوگ ایسے ہیں جن کے بارے میں ہم واقعی پریشان ہیں"۔
طالبان داعش کی خراساں شاخ کے جنگجوؤں کو "خوارج" کہتے ہیں۔ تاریخی طور پر خوارج کا لفظ مسلمانوں کے اس گروہ کے حوالے سے استعمال کیا جاتا ہے جو مبینہ طور پر ساتویں صدی میں اسلام کے مرکزی دھارے سے منحرف ہو گئے تھے۔ طالبان کا دعوی ہے کہ انہوں نے گزشتہ سال کے دوران درجنوں ایسے لوگوں کو ہلاک کیا۔
اگرچہ امریکی حکام داعش کی خراساں شاخ کو مشترکہ دشمن قرار دیتے ہیں، طالبان نے رپورٹس کے مطابق ان کےخلاف امریکہ سے براہ راست انسداد دہشت گردی کے لیے تعاون کرنے سے انکار کیا ہے۔ طالبان کا اصرار ہے کہ وہ اس دہشت گرد گروپ سے آزادانہ طور پر خود نمٹ سکتے ہیں۔