ویب ڈیسک۔ کابل سے امریکی فوجیوں کو نکلے ہوئے اب ایک برس ہو چکا ہے۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ اس بارے میں بہت کم ہی اتفاق رائے ہے کہ دنیا خاص طور سے مغرب ان دہشت گرد گروپوں سے کچھ زیادہ محفوظ ہے جو افغانستان کو اپنا گھر کہتے ہیں۔
اور اس بحث میں انتہائی تقسیم کرنے والی پیش رفتوں میں سے ایک اس سال 31 جولائی کو اس وقت ہوئی جب ایک امریکی فضائی حملے میں, جو تیس اگست دو ہزار اکیس کو امریکی افواج کے وہاں سے نکلنے کے بعد پہلا حملہ تھا, کابل کے مرکزی علاقے میں ایک محفوظ گھر کو نشانہ بنایا گیا۔ ا س حملے میں القائدہ دہشت گرد گروپ کے لیڈر ایمن الظواہری کو ہلاک کر دیا گیا۔
امریکی عہدیداروں کا کہنا ہے کہ الظواہری کئی ماہ قبل افغان دار ا لحکومت منتقل ہوئے تھے اور ایک ایسے گھر میں مقیم تھے جو طالبان حکمران اتحاد کے ایک رکن کی ملکیت تھا۔ اور یہ کہ طالبان عہدیدار اس بات سے آگاہ تھے کہ وہ وہاں مقیم ہے۔
وہائٹ ہاؤس کی قومی سلامتی کونسل کی ترجمان ایڈرین واٹسن نے پیر کے روز جاری ہونے والے ایک میمو میں لکھا تھا کہ دہشت گردی کے خطرات سے ہو شیار رہنے یا دنیا کےانتہائی مطلوب دہشت گرد کو میدان جنگ سے نکالنے کے لئےامریکہ کو وہاں زمین پر اپنی مستقل فوجی موجودگی کی ضرورت نہیں ہے۔
امریکی انٹیلیجینس کے ایک جائزے میں بھی حال ہی میں جس کی خفیہ حیثیت ختم کی گئی، افغانستان میں القائدہ کے خطرے کو غیر اہم بتایا گیا ہے۔
جائزے کے مطابق خاص طور پر القائدہ افغانستان سے امریکہ یا دوسرے ملکوں میں امریکی مفادات پر حملوں کی صلاحیت نہیں رکھتی۔
لیکن ایسے لوگ ہیں جنہیں اس نظرئیے پر شبہ ہے کہ القائدہ کی قوت کم ہوئی ہے۔ جن میں امریکہ کے کچھ قانون ساز اور سابق فوجی اور انٹیلیجینس عہدیدار شامل ہیں۔ جن کا کہنا ہے کہ کابل میں ظواہری کی موجودگی سے یہ خدشات پھر ُسے ابھرنے چاہئیں کہ طالبان القائدہ سے تعلق توڑنے سمیت دوحہ معاہدے میں کئے گئے وعدوں کو پورا کرنے میں ناکام ہو جائیں گے۔
اور یہ ممکنہ طور پھر سے ابھرنے والی صرف القائدہ ہی نہیں ہےجس نے دنیا بھر میں انسداد دہشت گردی کے اداروں میں تشویش پیدا کردی ہے۔ بلکہ اور بھی تنظیمیں ہیں۔
اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ میں جو گزشتہ ماہ جاری کی گئی ہے خبردار کیا گیا ہے کہ افغانستان میں اسلامک اسٹیٹ گروپ وسعت پارہا ہے۔ اور اسکی قیادت اپنے توسیع پسندانہ عزائم میں افغانستان کو ایک اڈے کے طور پر دیکھتی ہے۔
انٹیلیجینس کے ابتدائی تجزیوں کے مطابق طالبان کے سربراہ ہیبت اللہ اخوندزادہ نے روز مرہ کے سرکاری کام اپنی مقرر کردہ نگران کابینہ پر چھوڑ رکھے تھے۔ لیکن کئی ملکوں کی تازہ انٹیلیجینس سے پتہ چلتا ہے کہ اب حالات تبدیل ہو رہے ہیں۔
تاہم طالبان عہدیدار اس بات کی برسر عام تردید کرتے ہیں کہ انکی قیادت میں افغانستان میں دہشت گردی کوئی مسئلہ ہے۔ اور حال ہی میں انہوں نے دعوی کیا ہے کہ کابل میں الظواہری کی موجودگی ان کے علم میں نہیں تھی۔
لیکن امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس کا کہنا تھا کہ ہمارے پاس یہ باور کرنے کے لئے معقول بلکہ بہت معقول جواز موجود ہے کہ طالبان اورحقانی نیٹ ورک کے لوگ کابل میں ظواہری کی موجودگی سے آگاہ تھے اور ہم اسکے مضمرات کا جائزہ لے رہے ہیں۔