کراچی، کراچی کا ساحل اور کراچی والے ’غازی بابا‘۔۔اس ’تکون‘ کو کون نہیں جانتا. بے شمار لوگ اور انگنت عقیدت مند ایسے ہیں جنہیں بھروسا ہے کہ ان کی تمام مرادیں ’غازی بابا‘ ہی کی دعاؤں کا نتیجہ ہے جن کا مزار ساحل پر بنے ایک اونچے مقام پر واقع ہے۔
کسی کے نزدیک یہ روحانی مسیحا ہیں تو کسی کے نزدیک دستگیر۔ جمعہ سے اتوار تک عبداللہ شاہ غازی کا تین روزہ عرس منایا گیا, جس میں شہر، اندرون ملک اور بیرون ملک سے آنے والے ہزاروں افراد نے شرکت کی۔
اس دوران مزار کو غسل دیا گیا، غریبوں کے لئے نیاز نذر کا انتظام کیا گیا۔ پانی کی سبیلیں لگیں، مزار پر بے شمار چادریں اور پھول چڑھے۔ محفل سماع ہوئی اور دیگیں پکیں اور لنگر تقسیم ہوا۔
مزار سے متصل مسجد میں نمازیں ادا کی گئیں، قرآن خوانی ہوئی دعائیں اور منتیں مانی گئیں۔ منتوں کے لئے دھاگے بندھے، روایتی انداز میں چراغ جلائے گئے، خواتین نے نمک چاٹا اور جھولے میں پیسے چڑھائے۔
کس قسم کی منتیں مانی جاتی ہیں. اس سوال کے جواب میں وائس آف امریکہ سے متعدد افراد نے بات کی۔ پچاس سال کی عمر کے ایک بزرگ کا کہنا تھا ’’میں نے جو بھی اللہ تعالیٰ سے مانگا وہ غازی بابا کی دعاؤں سے مجھے ملا ہے۔ عرس شروع ہوتا ہے تو کوئی ان دیکھی طاقت مجھے مزار تک کھینچ لاتی ہے۔‘‘
’’بابا بہت کرامت والے ہیں‘‘، ٹھٹھہ اور بدین سے آنے والے کچھ لوگوں نے بتایا۔ ’’کچھ مہینے پہلے جب ہمارے علاقے میں طوفان آنے کی خبریں پھیلیں تو سب گھبرا گئے۔ ایسے میں سب نے دعا کی بابا جس طرح آپ کراچی کو ہر قسم کے سمندری طوفان اور مصیبتوں سے بچا کر رکھتے ہیں اسی طرح ہمارے علاقے کی بھی حفاظت کرو۔ سب لوگوں نے مزار پر آکر چادریں چڑھانے اور لنگر تقسیم کرنے کی منت مانگی اور بلا ٹل گئی‘‘۔
صوبہ سندھ میں موجود بزرگوں کے دیگر مزارات کی طرح عبداللہ شاہ کے مزار کی نگرانی اور دیکھ بھال بھی سرکاری ادارہ، محکمہ اوقاف کرتا ہے جسے چڑھاوے کی شکل میں لاکھوں روپے ماہانہ نقد اور سونا چاندی و دیگر قیمتی اشیاء ملتی ہیں جو مزار کے اخراجات کے بعد بھی اچھی خاصی تعداد میں بچ جاتی ہیں۔ بچی ہوئی نقدی اور قیمتی دھاتیں سرکاری خزانے میں جمع کرادی جاتی ہیں۔
اوقاف کی جانب سےمزار پر تعینات رہنے والے ایک سابق منیجر نصرت سے جب وی او اے کے نمائندے نے لوگوں کی مزار اور بابا کی عقیدت و احترام کے بارے میں سوال کیا تو ان کا کہنا تھاکہ وہ ایک ایسی بزرگ خاتون کو بھی بخوبی جانتے ہیں جو پچھلے پندرہ بیس سالوں سے ہفتے میں کم ازکم تین بار مزار پر ضرور آتی ہیں۔ صرف ان دنوں کو چھوڑ کر جب وہ ایک بار حج کرنے گئی تھیں ورنہ موسم کیسا ہی ہو، حالات بھی چاہے جیسے ہوں وہ یہاں آنا نہیں بھولتیں۔‘‘
حضرت عبداللہ شاہ غازی کے عرس میں شریک چھ افراد پر مشتمل خاندان کے ساتھ مزار پر آنے والے منصور شگری کے بقول وہ اسکردو سے عرس میں شرکت کی غرض سے آئے ہیں۔ انہیں یقین ہے کہ ان کے گھر بچوں کی پیدائش غازی بابا کی دعاؤں کا نتیجہ ہے ورنہ اس سے پہلے وہ بے اولاد تھے اور بچوں کی شدید خواہش رکھتے تھے۔
یہی نہیں بلکہ بے شمار عقیدت مند ہرسال مزار پر آکر بیرون ملک سفر، اعلیٰ تعلیم، والدین اپنی لڑکیوں کے اچھے رشتوں، مریض صحت یابی اور درجنوں خواتین شوہر کی محبت پانے، مالی حالات اچھے ہوجانے جیسی سینکڑوں قسم کی منتوں اور مرادوں کے پورا ہونے کے یہاں آکر دعاکرتے ہیں۔
پچھلے ایک دو سالوں سے مزار کی نئے سرے سے تزین و آرائش کا کام جاری ہے۔ اس کے اخراجات ایک کنسٹرکشن کمپنی برداشت کر رہی ہے۔ یہی کمپنی مزار سے متصل پاکستان کی سب سے بلند عمارت تعمیر کر رہی ہے۔