کراچی کے معروف بزرگ حضرت عبداللہ شاہ غازی کا 1283واں عرس پیر کے روز اختتام کو پہنچا۔ تین روزہ عرس کا آغاز ہفتے کو ہوا تھا جِس کا افتتاح قائم مقام گورنر آغا سراج درانی نے کیا تھا۔
عبداللہ شاہ غازی کا شمار کراچی کے سب سے مشہور بزرگان دین میں ہوتا ہے۔ ان کا مزار کلفٹن کے علاقے میں ایک پہاڑی پر واقع ہے جہاں تک پہنچنے کے لئے زائرین اور عقیدت مندوں کو کئی درجن سیڑھیاں چڑھنا پڑتی ہیں۔ لہذا، سہولت کے لئے یہاں لفٹ کی تنصیب کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
قائم مقام گورنر کے بقول یہ کام جلد مکمل ہوجائے گا۔ لفٹ کی تنصیب کے بعد غالباً یہ پاکستان کاایسا پہلا مزار ہوگا جہاں تک پہنچنے کے لئے لفٹ کے ذریعے سفر طے ہوگا۔ ملک بھر میں کسی اور مزار پر لفٹ کی تنصیب کا تذکرہ سننے کو نہیں ملتا۔
ہفتے سے پیر تک جاری رہنے والے عروس کے موقع پر ہزاروں افراد نے مزار پر حاضری دی۔
اس میں کراچی کے علاوہ صوبہ سندھ اور پاکستان کے دور دراز سے آنے والے زائرین بھی شامل تھے۔ اس دوران مزار پر فاتحہ خوانی اور چادریں چڑھانے کا سلسلہ بھی جاری رہا جبکہ اونٹ سمیت کئی جانور بھی ذبح ہوئے۔
روایات کے مطابق زائرین اور عقیدت مند لاکھوں روپے نقد کی صورت میں تو چڑھاتے ہی ہیں سونے، چاندی اور اسی قسم کی دیگر قیمتیں دھاتوں سے بنے زیورات اور دیگر قیمتی اشیاٴ بھی مزار پر چڑھاتے ہیں۔ یہ سلسلہ سال بھر جاری رہتا ہے۔
عروس میں زائرین کے لئے لنگر کا بطور خاص انتظام کیا گیا۔ محفل سماع بھی منعقد ہوئی جس میں ملک بھر کے قوالوں نے اپنا کلام پیش کیا۔ اس دوران عقیدت مندوں کی جانب سے ڈھول کی تھاپ پر دھمال بھی ڈالاجاتا رہا۔ دھمال کے موقع پر مرد، خواتین اور نوجوانوں کی بڑی تعداد موجود تھی۔
سنہ2010 میں اس مزار پر ایک ناخوش گوار واقعہ پیش آیا تھا جس میں دو خود کش دھماکے ہوئے جن میں کئی افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ لہذا، تب سے مزار کی سیکورٹی انتہائی سخت ہے۔ خاص کر عروس کے موقع پر یہاں تینوں دن سیکورٹی ہائی الرٹ رہی۔ اس دوران مزار کے چاروں اطراف درجنوں سیکورٹی اہلکار موجود رہے۔
عبدللہ شاہ کے درپہ۔۔ منتیں اور مرادیں
حضرت عبداللہ شاہ غازی کا مزار کراچی کے دیگر مزارات کے مقابلے میں منتیں اور مرادیں مانگنے کے لئے سب سے زیادہ مشہور ہے۔ ہر روز درجنوں عقیدت مند یہاں پہنچتے ہیں۔
کو ئی چادر چڑھانے کی منت مانتا ہے تو کوئی مزار کے احاطے میں موجود جھولوں کے گرد منتی دھاگے باندھنے، چراغ جلانے، پیدل سفر طے کرکے مزار تک پہنچنے، قیمتی چڑھاوے چڑھانے، مزار کے قریب غریبوں میں لنگر تقسیم کرنے یا دیگیں پکوانے کی منت مانگتا ہے۔
چڑھاوٴں کے عوض مزار کو سالانہ کروڑوں روپے کی آمدنی ہوتی ہے۔ مزار کی دیکھ بھال اور اس کے انتظامات کے لئے ایک حکومتی بورڈ موجود ہے وہی مزار پر چڑھاوٴں کے ذریعے ملنے والی آمدنی کا حساب کتاب رکھتا ہے۔
مزار پر آنے والی ایک خاتون بلقیس جہاں نے ’وائس آف امریکہ’ کو بتایا ’میں پچھلے پانچ سال سے متواتر عروس میں شرکت کرنے آ رہی ہوں۔ 2010ء میں حادثے والے دن بھی میں اپنے شوہر اور بچوں کے ساتھ یہاں آئی تھی لیکن اللہ کا شکر ہے کہ اس حادثے سے محفوظ رہیں۔میں نے کئی سال پہلے اپنی پسند کی شادی کے لئے منت مانی تھی، منت پوری ہوئی اور تبھی سے میں یہاں آرہی ہوں۔‘
ایک برزگ شہری ابراہیم کا کہنا تھا کہ وہ اپنے والدین کے زمانے سے مزار پر آرہے ہیں۔
انہیں یہاں آنا اچھا لگتا ہے۔ وہ مزار پر آکر گھنٹوں خاموشی سے بیٹھے رہتے ہیں یا ذکر اللہ کرتے ہیں ۔ اس سے انہیں قلبی سکون ملتا ہے۔
مزار کے احاطے میں موجود ایک اور نوجوان انور نے بتایا کہ وہ اچھے نمبروں سے پاس ہونے کے لئے ہر سال یہاں آکر دعا کرتے ہیں۔ ان کے خیال میں دعاوٴں کے سبب ہی انہیں کامیابی ملتی رہی ہے۔
عبداللہ شاہ غازی کا شمار کراچی کے سب سے مشہور بزرگان دین میں ہوتا ہے۔ ان کا مزار کلفٹن کے علاقے میں ایک پہاڑی پر واقع ہے جہاں تک پہنچنے کے لئے زائرین اور عقیدت مندوں کو کئی درجن سیڑھیاں چڑھنا پڑتی ہیں۔ لہذا، سہولت کے لئے یہاں لفٹ کی تنصیب کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
قائم مقام گورنر کے بقول یہ کام جلد مکمل ہوجائے گا۔ لفٹ کی تنصیب کے بعد غالباً یہ پاکستان کاایسا پہلا مزار ہوگا جہاں تک پہنچنے کے لئے لفٹ کے ذریعے سفر طے ہوگا۔ ملک بھر میں کسی اور مزار پر لفٹ کی تنصیب کا تذکرہ سننے کو نہیں ملتا۔
ہفتے سے پیر تک جاری رہنے والے عروس کے موقع پر ہزاروں افراد نے مزار پر حاضری دی۔
اس میں کراچی کے علاوہ صوبہ سندھ اور پاکستان کے دور دراز سے آنے والے زائرین بھی شامل تھے۔ اس دوران مزار پر فاتحہ خوانی اور چادریں چڑھانے کا سلسلہ بھی جاری رہا جبکہ اونٹ سمیت کئی جانور بھی ذبح ہوئے۔
روایات کے مطابق زائرین اور عقیدت مند لاکھوں روپے نقد کی صورت میں تو چڑھاتے ہی ہیں سونے، چاندی اور اسی قسم کی دیگر قیمتیں دھاتوں سے بنے زیورات اور دیگر قیمتی اشیاٴ بھی مزار پر چڑھاتے ہیں۔ یہ سلسلہ سال بھر جاری رہتا ہے۔
عروس میں زائرین کے لئے لنگر کا بطور خاص انتظام کیا گیا۔ محفل سماع بھی منعقد ہوئی جس میں ملک بھر کے قوالوں نے اپنا کلام پیش کیا۔ اس دوران عقیدت مندوں کی جانب سے ڈھول کی تھاپ پر دھمال بھی ڈالاجاتا رہا۔ دھمال کے موقع پر مرد، خواتین اور نوجوانوں کی بڑی تعداد موجود تھی۔
سنہ2010 میں اس مزار پر ایک ناخوش گوار واقعہ پیش آیا تھا جس میں دو خود کش دھماکے ہوئے جن میں کئی افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ لہذا، تب سے مزار کی سیکورٹی انتہائی سخت ہے۔ خاص کر عروس کے موقع پر یہاں تینوں دن سیکورٹی ہائی الرٹ رہی۔ اس دوران مزار کے چاروں اطراف درجنوں سیکورٹی اہلکار موجود رہے۔
عبدللہ شاہ کے درپہ۔۔ منتیں اور مرادیں
حضرت عبداللہ شاہ غازی کا مزار کراچی کے دیگر مزارات کے مقابلے میں منتیں اور مرادیں مانگنے کے لئے سب سے زیادہ مشہور ہے۔ ہر روز درجنوں عقیدت مند یہاں پہنچتے ہیں۔
کو ئی چادر چڑھانے کی منت مانتا ہے تو کوئی مزار کے احاطے میں موجود جھولوں کے گرد منتی دھاگے باندھنے، چراغ جلانے، پیدل سفر طے کرکے مزار تک پہنچنے، قیمتی چڑھاوے چڑھانے، مزار کے قریب غریبوں میں لنگر تقسیم کرنے یا دیگیں پکوانے کی منت مانگتا ہے۔
چڑھاوٴں کے عوض مزار کو سالانہ کروڑوں روپے کی آمدنی ہوتی ہے۔ مزار کی دیکھ بھال اور اس کے انتظامات کے لئے ایک حکومتی بورڈ موجود ہے وہی مزار پر چڑھاوٴں کے ذریعے ملنے والی آمدنی کا حساب کتاب رکھتا ہے۔
مزار پر آنے والی ایک خاتون بلقیس جہاں نے ’وائس آف امریکہ’ کو بتایا ’میں پچھلے پانچ سال سے متواتر عروس میں شرکت کرنے آ رہی ہوں۔ 2010ء میں حادثے والے دن بھی میں اپنے شوہر اور بچوں کے ساتھ یہاں آئی تھی لیکن اللہ کا شکر ہے کہ اس حادثے سے محفوظ رہیں۔میں نے کئی سال پہلے اپنی پسند کی شادی کے لئے منت مانی تھی، منت پوری ہوئی اور تبھی سے میں یہاں آرہی ہوں۔‘
ایک برزگ شہری ابراہیم کا کہنا تھا کہ وہ اپنے والدین کے زمانے سے مزار پر آرہے ہیں۔
انہیں یہاں آنا اچھا لگتا ہے۔ وہ مزار پر آکر گھنٹوں خاموشی سے بیٹھے رہتے ہیں یا ذکر اللہ کرتے ہیں ۔ اس سے انہیں قلبی سکون ملتا ہے۔
مزار کے احاطے میں موجود ایک اور نوجوان انور نے بتایا کہ وہ اچھے نمبروں سے پاس ہونے کے لئے ہر سال یہاں آکر دعا کرتے ہیں۔ ان کے خیال میں دعاوٴں کے سبب ہی انہیں کامیابی ملتی رہی ہے۔