بھارت کی ریاست اترپردیش کی حکومت نے بابری مسجد کی تعمیر کے لیے پانچ مختلف مقامات کا انتخاب کیا ہے۔ جس میں سے کسی ایک منتخب کردہ زمین کو سنی وقف بورڈ کے حوالے کیا جائے گا۔
بھارتی سپریم کورٹ نے نو نومبر کو بابری مسجد کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے متنازع زمین ہندوؤں کے حوالے کرتے ہوئے مسجد کی تعمیر کے لیے ایودھیا میں ہی پانچ ایکڑ متبادل زمین دینے کا فیصلہ کیا تھا۔
اتر پردیش کی حکومت نے 'پنچوکسی پاری کرما' کی تقریباً 15 کلو میٹر حدود سے باہر پانچ ایسے مقامات کی نشاندہی کی ہے جہاں بابری مسجد کی تعمیر کے لیے زمین مختص کرنے کی تجویز ہے۔
پنچوکسی پاری کرما ہندوؤں کا مقدس مقام ہے جہاں یاتری مذہبی رسومات ادا کرتے ہیں۔
بھارتی میڈیا کے مطابق ایودھیا میں بابری مسجد کی تعمیر کے لیے فیض آباد روڈ، بستی روڈ، سلطان پور روڈ، کورکھ روڈ سمیت ایک اور مقام پر خالی زمین کی نشاندہی کی گئی ہے۔
بابری مسجد کی تعمیر کے لیے ان مقامات کا انتخاب کیا گیا ہے جہاں ہندوؤں یا مسلمانوں کی ایک ساتھ تقاریب کی صورت میں کسی بھی فریق کو دشواری پیش نہ آئے۔
SEE ALSO: اگر میں جج ہوتا تو بابری مسجد دوبارہ تعمیر کرنے کا حکم دیتا: سابق بھارتی ججبھارتی میڈیا کے مطابق مسجد کی تعمیر کے لیے ہائی وے کے قریب زمین کا انتخاب کیا ہے جس سے مسلمانوں کو مسجد تک پہنچنے کے لیے آسانی ہوگی۔
جمیت علما ہند اور آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے بابری مسجد کی تعمیر کے لیے متبادل زمین لینے سے انکار کر دیا ہے۔ تاہم سنی وقف بورڈ کی جانب سے اب تک حکومتی پیشکش پر کوئی ردِ عمل سامنے نہیں آیا ہے۔
سپریم کورٹ کے حکم پر مرکزی حکومت نے ریاستی حکومت کو کہا تھا کہ ایودھیا میں بابری مسجد کی تعمیر کے لیے پانچ ایکڑ زمین کی نشاندہی کر کے تجاویز دی جائیں۔
اترپردیش کی حکومت نے فیض آباد کی ضلع حکومت کے ساتھ مل کر پانچ مختلف مقامات کی نشاندہی کی ہے جس کے بعد وزارتِ داخلہ کو منتخب کردہ زمینوں کی فہرست فراہم کر دی ہے۔
SEE ALSO: بابری مسجد رام مندر کیس کا فیصلہ اور کئی سوالاتیاد رہے کہ دو دسمبر 1992 کو ایک ہجوم نے بابری مسجد پر حملہ کر کے وہاں توڑ پھوڑ کی تھی۔ ہندوؤں کا کہنا ہے کہ اس مقام پر رام کی پیدائش ہوئی تھی جہاں مغل دور حکومت میں بابری مسجد تعمیر کی گئی تھی۔
بعدازاں بابری مسجد کا تنازع برسوں بھارت کی عدالت میں زیر سماعت رہا اور رواں برس نو نومبر کو سپریم کورٹ نے اس تنازع کا فیصلہ کرتے ہوئے زمین ہندوؤں کے حوالے کرتے ہوئے وہاں رام مندی کی تعمیر کی اجازت دی تھی۔
بھارتی سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے خلاف نظرثانی کی اپیلیں بھی دائر کی گئیں جنہیں مسترد کر دیا گیا ہے۔