بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کے کئی علاقوں میں پیر کو اُس وقت اچانک افراتفری اور مظاہرے پھوٹ پڑے جب یہ افواہ پھیل گئی کہ بھارتی سپریم کورٹ آئینِ ہند کی دفعہ 35 اے کے خلاف دائر درخواستوں کی پیر کو سماعت کرنے والی ہے۔
ریاست کے گرمائی صدر مقام سرینگر، جنوبی شہروں اننت ناگ اور پلوامہ اور مسلم اکثریتی وادئ کشمیر کے کئی دوسرے علاقوں میں لوگ سڑکوں پر آگئے اور بھارت مخالف نعرے لگائے۔
کشیدگی کے باعث بیشتر علاقوں میں بازار بند ہوگئے جب کہ سڑکوں سے ٹرانسپورٹ غائب ہوگئی۔ کئی مقامات پر مظاہرین اور سکیورٹی فورسز کے دستوں کے درمیان جھڑپیں بھی ہوئیں جو مختلف مقامات پر پیر کی دوپہر تک وقفے وقفے سے جاری تھیں۔
اطلاعات کے مطابق نئی دہلی میں عدالتِ عظمیٰ نے پیر کو دائیں بازو کے ایک سیاسی کارکن اور وکیل اشونی کمار اپادھیائے کی طرف سے دفعہ 35 اے کے خلاف پیش کی گئی ایک تازہ پٹیشن کو قبول یا خارج کرنے کے بارے میں فیصلہ کرنا تھا۔
اطلاعات کے مطابق عدالتِ عظمیٰ نے درخواست گزار کی اپیل پر پٹیشن کی سماعت ملتوی کردی ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
حکام کا کہنا ہے کہ تازہ درخواست کا سپریم کورٹ میں زیرِ سماعت اُن عرض داشتوں سے کوئی تعلق نہیں جن میں آئینِ ہند کی اس دفعہ کے قانونی جواز کو چیلنج کرکے اسے ختم کرنے کی درخواست کی گئی ہے۔
اطلاعات کے مطابق عدالتِ عظمیٰ میں ان درخواستوں کی اگلی سماعت 31 اگست کو متوقع ہے۔
تاہم ریاست کے محکمۂ قانون کے ایک ترجمان نے کہا کہ سماعت کے لیے اگلی تاریخ کا حتمی فیصلہ بُدھ کو کیا جائے گا اور ممکن ہے کہ دفعہ 35 اے کے خلاف عدالت میں پیش کی گئی تازہ درخواست کو پہلے سے زیرِ سماعت درخواستوں کے ساتھ منسلک کردیا جائے۔
پولیس اور قانون نافذ کرنے والے دوسرے اداروں کے حکام نے وادی کے لوگوں سے صبر و تحمل سے کام لینے اور افواہوں پر کان نہ دھرنے کی اپیل کی ہے۔
دفعہ 35 اے بھارتی آئین کی دفعہ 370 کی ایک ذیلی شق ہے جسے 1954ء میں ایک صدارتی فرمان کے ذریعے آئین میں شامل کیا گیا تھا۔ دفعہ 370 کے تحت ریاست جموں و کشمیر کو ہندوستان کے وفاق میں خصوصی آئینی حیثیت حاصل ہے۔
دفعہ 35 اے کے تحت جموں و کشمیر کی ریاستی اسمبلی کو ریاست کے "مستقل رہائشیوں" (دیرینہ باسیوں) کا تعین کرنے اور انہیں خصوصی حقوق اور مراعات دینے کا حق حاصل ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر دفعہ 35 اے منسوخ کی جاتی ہے تو اس سے ریاست میں 1927ء سے نافذ وہ قانون متاثر ہوگا جس کے تحت کئی پشتوں سے کشمیر میں آباد افراد ہی ریاست میں غیر منقولہ جائیداد کی خرید و فروخت کرنے، سرکاری ملازمتیں اور تعلیمی وظائف کے حصول اور ریاستی اسمبلی کے انتخاب میں ووٹ دینے کے مجاز ہیں۔
کشمیری جماعتوں کا استدلال ہے کہ دفعہ 35 اے کو منسوخ کرانے کے مطالبے کے پیچھے مسلم اکثریتی ریاست میں آبادی کے تناسب کو تبدیل کرنے کی سوچ کار فرما ہے۔
ان کا الزام ہے کہ بھارت کی حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) اس آئینی شق کے خلاف مہم چلانے والوں کی پشت پناہی اور اعانت کر رہی ہے۔
بی جے پی برملا طور پر آئینِ ہند کی ان دفعات کے خاتمے کا مطالبہ کرچکی ہے اور اس کا کہنا ہے کہ آئینِ ہند کی دفعہ 370 اور دفعہ 35 اے کو ختم کرنے کا وقت آگیا ہے کیوں کہ اس کے بقول یہ دفعات علیحدگی کی نفسیات اور سوچ کو پروان چڑھانے کا مؤجب بنی ہیں۔
مبینہ طور پر آر ایس ایس کی پشت پناہی میں کام کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم – وی، دی سٹیزنز – نے دفعہ 35 اے کو بھارتی سپریم کورٹ میں چیلنج کیا ہے اور کشمیری رہنما خدشہ ظاہر کرچکے ہیں کہ عدالتِ عظمیٰ اس آئینی ضمانت کو منسوخ کر سکتی ہے۔
عدالت میں دفعہ 370 کے خلاف بھی ایک عرض داشت زیرِ سماعت ہے۔
نئی دہلی کے زیرِ انتظام کشمیر میں بی جے پی اور اس کی اتحادی تنظیموں کو چھوڑ کر تمام سیاسی، سماجی، مذہبی اور تجارتی جماعتیں اور پیشہ وارانہ انجمنیں ان آئینی دفعات کے دفاع میں متحد ہوگئی ہیں۔
استصوابِ رائے کا مطالبہ کرنے والی جماعتیں بھی جو آئینِ ہند کو نہیں مانتیں، دفعہ 370 اور دفعہ 35 اے کے حق میں سرگرم ہیں۔
کشمیر کے سرکردہ آزادی پسند رہنماؤں سید علی شاہ گیلانی، میر واعظ عمر فاروق اور محمد یاسین ملک پر مشتمل ایک اتحاد کی اپیل پر ریاست کی خصوصی پوزیشن کو ختم کرنے کی کوششوں کے خلاف 5 اور 6 اگست کو دو روزہ ہڑتال کی گئی تھی جس سے وادئ کشمیر اور جموں خطے کی مسلم اکثریتی چناب وادی میں کاروبارِ زندگی مفلوج ہو گیا تھا۔
'مشترکہ مزاحمتی قیادت' کہلائے جانے والے اس اتحاد نے اب لوگوں سے اس معاملے پر 30 اگست سے دوبارہ دو روزہ ہڑتال کرنے کے لیے کہا ہے۔