امریکہ میں کرونا وائرس کے باعث ایک ہی دن میں ریکارڈ ہلاکتیں ہوئی ہیں۔ منگل کو ملک بھر میں کرونا وائرس سے 2228 افراد ہلاک ہوئے۔
ریاست نیو یارک کے حکام نے پھیپھڑوں کی بیماری سے ہلاک ہونے والے غیر مصدقہ مشتبہ مریضوں کو بھی کرونا سے ہلاکتوں میں شمار کرنے کا آغاز کر دیا ہے۔ جس کے بعد نیو یارک میں ہلاکتیں 10000 سے زائد ہو گئی ہیں۔
خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق نیویارک کے حکام کا کہنا ہے کہ 11 مارچ سے کرونا وائرس سے ہلاک ہونے والے افراد کا ڈیٹا مرتب کرنے کے عمل کا آغاز ہوا۔ جس کے بعد 3700 سے زائد ایسے افراد کی نشاندہی ہوئی جن کا متعدی مرض کے باعث انتقال ہوا، لیکن ان افراد کے کرونا ٹیسٹ نہیں کیے گئے تھے۔
کرونا وائرس کے تصدیق شدہ کیسز کے علاوہ نیو یارک میں سانس کی بیماریوں کے باعث ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد میں 60 فی صد اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ جہاں کئی ہفتوں سے خالی سڑکوں پر مسلسل ایمبولینسز کے گونجتے سائرن پریشان کن صورتِ حال کی نشاندہی کر رہے ہیں۔
منگل تک نیویارک میں کرونا وائرس کے باعث ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد 10367 تک پہنچ گئی ہے۔ ملک بھر میں کرونا سے ہلاکتیں 26000 سے زائد ہو گئی ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ امریکہ میں آبادی کے بہت کم حصے کے کرونا ٹیسٹ کیے گئے ہیں۔ جن میں سے اب تک چھ لاکھ سے زائد افراد کے ٹیسٹ مثبت آئے ہیں۔
اطلاعات کے مطابق نیو یارک میں اپنائی گئی پالیسی پر دیگر ریاستیں بھی عمل کر سکتی ہیں۔ جس سے امریکہ میں ہلاکتوں کی تعداد میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
نیویارک کے علاوہ امریکی ریاستوں لوزیانا اور کیلیفورنیا میں بھی منگل کو کرونا وائرس کے باعث ہلاکتوں میں اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ یہ اضافہ ایسے وقت میں ہوا ہے جب امریکہ میں وائرس کے پھیلاؤ میں کمی کے دعوے کیے جا رہے تھے۔
البتہ حکام کا کہنا ہے کہ اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ سماجی پابندیوں کے فوائد حاصل نہیں ہو رہے۔
نیو یارک کے گورنر اینڈریو کومو کا پیر کو ایک بیان سامنے آیا تھا جس میں اُن کا کہنا تھا کہ "انتہائی برے دن اب ختم ہو چکے ہیں۔"
امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یکم مئی کو امریکہ میں معاشی سرگرمیاں بحال کرنے کا عندیہ دیا تھا۔ لیکن وبائی امراض کے ماہر ڈاکٹر انتھونی فاؤچی نے کہا تھا کہ صدر حد سے زیادہ پر امید ہیں۔ حالانکہ ہمیں اب بھی احتیاط کی ضرورت ہے۔
ڈاکٹر فاؤچی نے امریکی ریاستوں کے گورنرز کو تجویز دی تھی کہ وہ ٹیسٹوں کی استعداد کار بڑھائیں اور مثبت آنے والے کیسز کو الگ کریں۔
امریکہ کی مختلف ریاستوں میں لوگوں کو گھروں میں رہنے کا پابند کیا گیا ہے۔ مخصوص اوقات میں ہی باہر نکلنے کی اجازت ہے۔ خلاف ورزی کرنے والوں کو چھ ماہ تک قید اور ایک ہزار ڈالر جرمانہ ادا کرنے کی تنبیہ کی گئی ہے۔
'امریکہ میں سماجی پابندیاں 2022 تک رہ سکتی ہیں'
امریکی ماہرین کی ایک تحقیق میں خدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ اگر کرونا وائرس کی ویکسین دریافت یا ضروری اقدامات نہ کیے گئے تو امریکہ میں سماجی پابندیاں 2022 تک برقرار رہ سکتی ہیں۔
ہارورڈ اسکول آف پبلک ہیلتھ کی تحقیق میں وائٹ ہاؤس کے ان تخمیوں کی نفی کی گئی ہے کہ یہ وبا گرمیوں میں ختم ہو جائے گی۔
محقق اور وبائی امراض کے ماہر پروفیسر مارک لیپسچ نے امریکی نشریاتی ادارے 'سی این این' کو بتایا کہ جب تک علاج کی سہولیات میسر نہیں آ جاتیں۔ امریکہ کو مختلف وقفوں میں 2022 تک سماجی پابندیاں عائد کرنا پڑ سکتی ہیں۔
تحقیق میں کہا گیا ہے کہ ہمیں ایسے ٹیسٹوں کی ضرورت ہے، جس سے یہ اندازہ لگایا جا سکے کہ کون اس وائرس کے خلاف قوت مدافعت حاصل کر چکا ہے۔ لہذٰا مستقبل میں ہو سکتا ہے کہ ہمیں دو طرح کی درجہ بندی کرنا پڑے۔ ایسے افراد جو وائرس کے خلاف قوت مدافعت رکھتے ہیں اور دوسرے وہ جو اس کا شکار ہو سکتے ہیں۔