پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن نے اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ اگر کرونا مریضوں کی تعداد بڑھتی رہی اور طبی عملے کو حفاظتی کٹس کی فراہمی ممکن نہ بنائی گئی تو صحت کا شعبہ مکمل طور پر بیٹھ جانے کا خدشہ ہے۔
پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے جنرل سیکریٹری، ڈاکٹر قیصر سجاد نے کہا ہے کہ حفاظتی کٹس کے بغیر علاج کرنے کے باعث اب تک 70 سے زائد طبی عملہ، جس میں ڈاکٹر اور نرسیں بھی شامل ہیں، کرونا وائرس کا شکار ہوچکے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر قیصر سجاد نے بتایا کہ نشتر ہسپتال ملتان میں اب تک 16 ڈاکٹروں اور نرسوں میں وائرس کی تصدیق ہو چکی ہے۔ اسی طرح کراچی اور اسلام آباد میں بھی کئی ڈاکٹر وائرس کا شکار ہوئے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ حکومت کو انہی کی تنظیم نے چین میں وائرس سے ہلاکتوں پر متنبہ کیا تھا کہ ابھی سے حفاظتی انتظامات کئے جائیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اس وائرس سے لڑنے میں بغیر حفاظتی انتظامات کے ڈاکٹر محاذ پر کھڑے ہیں۔
ان کے بقول، ''اس صورتحال میں، اگر ڈاکٹر ہمت ہارے تو پھر کیا ہوگا؟''
پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن نے صحت کے کارکنان کو درپیش مشکلات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے، مطالبہ کیا ہے کہ وینٹی لیٹرز کی خریداری کو ترجیح دینے کے بجائے، این ڈی ایم اے کرونا ٹیسٹ کرنے کی گنجائش بڑھانے اور ہیلتھ کئیر ورکرز کے لئے مؤثر ذاتی حفاظتی سامان (پی پی ای) فوری فراہمی کو ممکن بنائے۔
ادھر وزیر اعظم عمران خان نے گذشتہ ہفتے حکومتی مشینری کو یہ ہدایت دی تھی کہ صحت کے شعبے سے وابستہ افراد کو ذاتی حفاظتی کٹس کی فراہمی کو ممکن بنایا جائے، جبکہ مشیر برائے صحت ڈاکتر ظفر مرزا کا کہنا ہے کہ ذاتی حفاظتی کٹس اور این 95 ماسکس کی مقامی طور پر بھی تیاری جلد شروع کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے، تاکہ اس کمی کو پورا کیا جاسکے۔
حکام کے مطابق، ابتدائی طور پر کوشش کی جا رہی ہے کہ مقامی طور پر 1 لاکھ ماسک تیار کئے جا سکیں۔
حکومت کا دعویٰ ہے کہ ملک کے تمام ہسپتالوں میں جہاں کرونا کے مریضوں کو رکھا گیا ہے وہاں حفاظتی کٹس کی فراہمی ممکن بنائی جا رہی ہے، جبکہ دوسری جانب کئی فلاحی اداروں اور مخیر حضرات کے علاوہ فیشن ڈیزانئیرز بھی اس میں طبی عملے کی مدد کے لئے میدان میں نظر آ رہے ہیں۔