کرد پیش مرگہ جنگجو عراقی فوج کی طرف سے کرکوک شہر کو خالی کرنے کے حکم کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنی جگہ پر موجود ہیں اور اب شہر کو خالی کرنے کی ڈید لائن گزرنے کے بعد دونوں حریف فورسز ایک دوسرے کے آمنے سامنے خیمہ زن ہیں۔
کرد سکیورٹی عہدیداروں نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ عراق نے کردوں سے کہا تھا کہ وہ اس علاقے کو مقامی وقت کے مطابق ہفتہ کی شب بارہ بجے کے بعد خالی کر دیں۔ تاہم انہوں نے کہا کہ پیش مرگہ فورسز یہاں موجود رہیں گی اور اپنی پوزیشن کا دفاع کریں گی۔
نامہ نگاروں نے کہا ہے کہ ابھی تک جھڑپوں کی اطلاع نہیں ملی تاہم دونوں طرف کے جنگجو لڑائی کے لیے تیار کھڑے ہیں۔
امریکہ کے وزیر دفاع جم میٹس نے جمعہ کو متنازع شہر کے نواح میں موجود کرد اور عراقی فورسز پر" معاملات کو ٹھنڈا رکھنے پر" زور دیا لیکن دوسری طرف کرد عہدیدار عراقی فورسز کے حملے کے خطرے سے مسلسل متنبہ کر رہے ہیں۔
میٹس نے کہا تھا کہ اس بڑھتی ہوئی کشیدگی پر واشنگٹن پوری طرح نظر رکھے ہوئے ہے۔ انہوں نے امریکہ کے دونوں اتحادیوں کو متنبہ کیا تھا کہ یہ وقت نہیں ہے کہ وہ دہشت گرد گروپ داعش کے خلاف بڑی لڑائی سے اپنی توجہ ہٹا لیں۔
میٹس نے میامی میں امریکہ کی جنوبی کمانڈ کے دورے کے بعد واشنگٹن جاتے ہوئے طیارے میں نامہ نگاروں کو بتایا کہ "ہمیں ایک دوسرے سے لڑنا نہیں چاہیے ۔۔۔ہم نہیں چاہتے کہ ایک دوسرے سے برسرپیکار ہونے کی نوبت آئے۔"
انہوں نے مزید کہا کہ "میری فورسز ان فورسز میں شامل ہیں اور وہ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کوشاں ہیں کہ کسی جھگڑے کی نوبت نا آئے۔"
تاہم جمعہ دیر گئے کرد عہدیدار مُصر تھے کہ عراقی فورسز بشمول 'پاپولر موبلائزیشن یونٹس' یعنی 'پی ایم یو' اسٹریٹجک شہر کے جنوب اور مغرب میں خیمہ زن ہو رہی ہیں۔ پاپولر موبلائزیشن یونٹس میں سابق شیعہ ملیشیا گروپ بھی شامل ہیں جن میں سے بعض ایران کے حامی ہیں۔
کردستان کی علاقائی حکومت کے ایک نمائندے بیان سمیع عبدالرحمن نے واشنگٹن میں ایک بریفنگ کے دورا ن کہا کہ "(فورسز کی) یہ حرکت غیر معمولی اور اشتعال انگیز ہے۔"
انہوں نے کہا کہ ان فورسز کو تعینات کرنے کی اس لیے ضرورت نہیں ہے کیونکہ وہاں داعش موجود نہیں ہے۔
دوسری طرف کرد عہدیداورں کے دعوؤں کے باوجود عراقی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ وہ شہر پر حملے کا کوئی ارداہ نہیں رکھتے لیکن وہ صرف اس خطے پر اپنی عملداری کا اظہار کر رہے ہیں جو انہیں پہلے ہی اس علاقے پر حاصل ہے۔
عراقی وزیر اعظم نے جمعہ کو ایک ٹویٹ میں کہا کہ تھا "ہمارے شہریوں کے خلاف کہیں بھی کوئی لڑائی نہیں ہو گی۔"
ستمر کے اواخر میں ہونے والے کردستان کی آزادی کے ریفرنڈم میں بغداد اور بین الاقوامی برادری کے اعتراضات کے باوجود 92 فیصد کرد ووٹروں نے آزادی کے حق میں فیصلہ دیا جس کے بعد سے عراقی اور کرد عہدیداروں کے درمیان کشدگی میں اضافہ ہو گیا ہے۔