شمالی عراق میں کردستان علاقائی حکومت KRG نے اعلان کر رکھا ہے کہ وہ 25 ستمبر کو آزادی کیلئے ریفرنڈم کرائے گی۔ عراقی حکومت یہ ریفرنڈم رکوانے کیلئے سرتوڑ کوششوں میں مصروف ہے اور اسے اس سلسلے میں امریکہ کی حمایت بھی حاصل ہے۔
امریکی محکمہ خارجہ نے جمعرات کے روز جاری کی گئی ایک پریس ریلیز میں کہا ہے کہ عراق کے تمام ہمسایہ ممالک اور عالمی برادری کے ساتھ ساتھ امریکہ بھی اس ریفرنڈم کی سختی سے مخالفت کرتا ہے۔پریس ریلیز میں محکمہ خارجہ نے کرد رہنماؤں کو مشورہ دیا ہے کہ وہ متبادل راستہ اختیار کرتے ہوئے عراق کی وفاقی حکومت سے اُن مزاکرات کا راستہ اپنائے جن کے لئے امریکہ، اقوام متحدہ اور دیگر اتحادی ممالک نے مدد کا وعدہ کر رکھا ہے۔ محکمہ خارجہ نے خبردار کیا ہے کہ اگر کرد رہنما ریفرنڈم پر مصر رہیں گے تو اُس کے نتیجے میں عراق کی وفاقی حکومت سے مذاکرات کا راستہ ہمیشہ کیلئے بند ہو جائے گا اور وہ امریکی مدد کی پیشکش سے بھی ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔
پریس ریلیز میں مزید کہا گیا کہ اس ریفرنڈم پر اصرار کی وجہ سے عراق کے باقی ماندہ حصوں سے داعش کو باہر نکالنے کی کارروائیوں میں خلل پڑ رہا ہے۔
تاہم کرد رہنما اس ریفرنڈم پر مصر ہیں۔ اُدھر عراق کی سپریم کورٹ نے KRG کو حکم دیا ہے کہ وہ ریفرنڈم کا ارادہ فوری طور پر ختم کر دے کیونکہ اس سے ملکی آئین کی نفی ہوتی ہے۔ عرب نیوز کے مطابق عراقی پارلیمان میں کرد ارکان اس مسئلے پر بات چیت کیلئے دیگر پارلیمانی ارکان سے ملنے والے ہیں اور اس بات کا امکان موجود ہے کہ وہ اس بات چیت کے نتیجے میں ریفرنڈم منسوخ کر دیں گے۔ کردش صدر مسعود بارزانی نے منگل کے روز کہا تھا کہ وہ بغداد کی طرف سے مکمل آزادی دینے کے وعدے کے بغیر اس ریفرنڈم کو منسوخ نہیں کریں گے۔ تاہم کرد لوگ اس ریفرنڈم کے حامی دکھائی دیتے ہیں۔ کرکوک سمیت متعدد کرد شہروں میں اس ریفرنڈم کے بارے میں خاصا جوش و خروش پایا جاتا ہے۔
عالمی سطح پر آزاد کردستان کی حمایت یا مخالفت کے بارے میں خاصا تضاد پایا جاتا ہے۔ اقوام متحدہ نے پہلے ہی ریفرنڈم کی مخالفت کرتے ہوئے کرد رہنما مسعود بارزانی کو مشورہ دیا ہے کہ وہ عراق کی وفاقی حکومت کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے اگلے تین برس کے اندر کوئی معاہدہ طے کر لیں۔
امریکی محکمہ خارجہ نے اگرچہ ریفرنڈم کی مخالفت کی ہے تاہم امریکہ نے داعش کے خلاف لڑائی میں کرد پیش مرگا فورسز کی حمایت کی ہے۔ کرد پیش مرگا فورسز نے کرکوک جیسے کرد علاقوں کو داعش سے واگزار کرانے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔
تاہم اس سلسلے میں روس کی پایسی مکمل طور پر واضح نہیں ہے۔ روس کردستان کی آزادی کی حمایت کرتا آیا ہے لیکن اُس نے آزادی کیلئے مجوزہ ریفرنڈم کی حمایت کا اعلان نہیں کیا ہے۔ روس کی توانائی سے متعلق بڑی کمپنی روزنیفٹ نے حال ہی میں کردستان میں قدرتی گیس کی پائپ لائن بچھانے کیلئے ایک ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا اعلان کیا ہے۔ مبصرین کا خیال ہے کہ اس منصوبے کی تکمیل سے عراق سے علیحدگی کی صورت میں کردستان کو اہم مالی اور اقتصادی فوائد حاصل ہوں گے۔
اسرائیل اُن ممالک میں شامل ہے جس نے سب سے پہلے آزاد کردستان کی حمایت کی تھی۔ اسرائیل اور کردستان کے درمیان مضبوط معاشی تعلقات قائم ہیں اور اسرائیل اپنی ضرورت کا 77 فیصد تیل کردستان سے ہی درآمد کرتا ہے۔
تاہم عراق کا ہمسایہ ملک ترکی آزاد کردستان کی مخالفت کرتا ہے اور اُس نے ترکی میں قائم کردوں کی قوم پرست تحریک PKK کو دہشت گرد تنظیم قرار دے رکھا ہے۔ آزادی کے مجوزہ ریفرنڈم کی سرکاری طور پر مخالفت کرتے ہوئے ترکی نے پیر کے روز عراق کی کرد سرحد کے قریب ٹینکوں کی مدد سے فوجی مشقیں کی تھیں۔ تاہم ترکی ماضی میں کرد تنظیم KRG کا حامی رہا ہے اور وہ بھی کرد علاقے سے ایک پائپ لائن کے ذریعے بڑی مقدار میں تیل درآمد کرتا ہے۔ اس کے علاوہ KRG نے 2016 میں ترکی کو کرد علاقے میں تیل کی تنصیبات میں 5 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے کی پیش کش کی تھی۔ یوں کرد علاقے میں ترکی کے معاشی مفادات کی بنا پر اس بات کا امکان نہیں ہے کہ ترکی کرد ریفرنڈم کی کھل کر مخالفت جاری رکھے گا۔
اُدھر سعودی عرب اور خلیجی ممالک نے سفارتی حکمت عملی اختیار کرتے ہوئے کردوں اور عراقی حکومت کے درمیان مصالحت کرانے کی پیش کش کی ہے۔ اس سلسلے میں ایک سعودی وفد پہلے ہی کرد رہنما بارزانی سے ملاقات کر چکا ہے۔ سعودی حکومت نے 2016 میں اربیل میں قونصلیٹ کھول کرپہلے ہی KRG کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کر چکا ہے۔
KRG عراق کے 20 فیصد تیل کے ذخائر کو کنٹرول کرتا ہے۔ یوں آزادی کی صورت میں کردستان تیل برآمد کرنے والے ملکوں کی تنظیم اوپیک کے رکن دس بڑے ممالک میں شامل ہو جائے گا۔ اس طرح کرد علاقے میں رونما ہونے والے واقعات تیل کی منڈی میں ہل چل مچا سکتے ہیں۔