امریکہ کی پیرس معاہدے میں واپسی کو اہم پیش رفت اور امید کا دن قرار دیتے ہوئے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے کہا کہ آب و ہوا کی تبدیلی ایک عالمی مسئلہ ہے جس سے نمٹنے کے لیے سب کو مل کر کام کرنا ہو گا۔
کرہ ارض کا درجہ حرارت بڑھنے سے دنیا بھر میں موسموں کی شدت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اقوام متحدہ کے خوراک کے پروگرام نے کہا ہے کہ شدید موسمی حالات اور کرونا وائرس کے پھیلاؤ کی وجہ سے وسطیٰ امریکی ممالک میں لگ بھگ 80 لاکھ افراد بھوک اور قحط کے دہانے پر پہنچ گئے ہیں۔
کاربن گیسوں کے اخراج میں مسلسل اضافے سے کرہ ارض کا درجہ حرارت بڑھ رہا ہے, جس سے موسموں کی شدت میں اضافہ ہو ہو رہا ہے۔ حالیہ برسوں میں طوفانوں، سیلابوں، شدید بارشوں اور افریقہ سمیت دنیا کے کئی علاقوں میں خشک سالی میں اضافہ ہوا ہے جس سے خوراک اور پانی کی دستیابی میں قلت کے باعث لاکھوں افراد کو عالمی امداد کی شدید ضرورت ہے۔ قحط کی وجہ سے خاص طور پر یمن میں لاکھوں بچوں کے ہلاک ہونے کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔
لاطینی امریکہ اور کریبین کے علاقوں کے لیے خوراک کے عالمی پروگرام کی ریجنل ڈائریکٹر میگول بیرٹو نے کہا ہے کہ موسم اور وبا کی صورت حال کے باعث لوگوں کو پہنچنے والے نقصان کے پیش نظر بحالی کے عمل میں طویل عرصہ لگ سکتا ہے۔
ورلڈ فوڈ پروگرام کے جنوری میں کرائے گئے ایک سروے سے ظاہر ہوا ہے کہ لاطینی امریکہ میں تقریباً 15 لوگ دوسرے علاقوں کی جانب نقل مکانی کی ٹھوس منصوبہ بندی کر چکے ہیں، جہاں انہیں خوراک دستیاب ہو۔
یو این کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سمندری طوفان ایٹا اور لوٹا سے لاطینی ملکوں کے 68 لاکھ سے زیادہ لوگ متاثر ہوئے ہیں اور خطے کے چار ملکوں میں دو لاکھ ہیکٹر سے زیادہ رقبے پر کھڑی فصلوں کو نقصان پہنچا ہے۔ جب کہ ہنڈورس اور نکاراگوا میں دس ہزار ہیکٹر پر کافی کی فصل تباہ ہو گئی ہے۔
اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ نکاراگوا، ہنڈورس، گوئٹے مالا اور ایل سیلواڈور میں اس سال 26 لاکھ لوگوں کی خوراک کی فراہمی کے لیے 47 کروڑ ڈالر کے عطیات کی ضرورت ہے۔
آب و ہوا کی تبدیلیوں پر کنٹرول کے لیے ماہرین گرین ہاؤس گیسوں کا اخراج روکنے کو ضروری سمجھتے ہیں۔ گلوبل وارمنگ سے متعلق پیرس معاہدے میں 2050 تک کاربن گیسوں کے اخراج کی سطح صفر پر لانے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے۔ لیکن سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے امریکہ کو معاہدے سے نکالنے کے بعد اس ہدف کا حصول نہ صرف مشکل ہو گیا تھا بلکہ یہ خدشات بھی پیدا ہو گئے تھے کہ کرہ ارض کے درجہ حرارت میں مزید اضافے سے موسموں کی شدت جانی اور مالی نقصانات میں اضافے کا سبب بن سکتی ہے۔
حال ہی میں بائیڈن انتظامیہ نے پیرس معاہدے میں واپسی کا اعلان کیا ہے، جسے عالمی سطح پر سراہا جا رہا ہے۔
اقوام متحدہ نے امریکہ کی پیرس معاہدے میں واپسی کو سراہتے ہوئے اسے آب و ہوا میں تبدیلی کو روکنے کے سلسلے میں اہم پیش رفت اور امید کا موقع قرار دیا ہے۔
آب و ہوا کے تحفظ پر اقدامات کے پیرس معاہدے پر امریکہ سمیت اقوام عالم نے 2015 میں اتفاق کیا تھا۔
سیکرٹری جنرل انٹونیو گوٹریس نے کہا ہے کہ گزشتہ چار سال میں امریکہ کی ایک کلیدی کردار کے حیثیت سے عدم شرکت سے اس معاہدے پر عمل درآمد میں ایک خلا آ گیا تھا اور آب و ہوا کی تبدیلی کو روکنے کی کوششیں کمزور پڑ گئی تھیں۔ لہذا ہم امریکہ کی واپسی کو خوش آمدید کہتے ہیں۔
امریکہ کی اس معاہدے میں واپسی کو اہم پیش رفت اور امید کا دن قرار دیتے ہوئے اقوام متحدہ کے رہنما نے کہا کہ انہیں انتہائی مسرت ہے کہ امریکی صدر کے نمائندہ خصوصی برائے آب و ہوا جان کیری اس تقریب میں شریک ہیں۔
اس موقع پر کیری نے کہا کہ ہم عاجزی کے ساتھ لیکن پرعزم طریقے سے اس معاہدے میں واپس آئے ہیں۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ محض پیرس کلائمیٹ پر عمل کرنا نہیں بلکہ سائنس کے مطابق سب کو مل جل کر اس اہم مسئلہ پر کام کرنا ہو گا اور یہ کہ اس وقت کوئی بھی براعظم یا کوئی بھی ملک انفرادی طور پر یہ کام انجام نہیں دے پا رہا۔
SEE ALSO: امریکہ پھر ڈبلیو ایچ او میں شامل، ماحولیاتی تحفظ کے معاہدے میں بھی واپسییاد رہے کہ پیرس معاہدے کی روح سے دنیا کو درجہ حرارت میں صنعتی انقلاب سے پہلے کے مقابلے میں اضافے کو ایک اعشاریہ پانچ سیلسیس تک محدود کرنا ہے۔ اور ایسا کرنے کے لیے فضا میں زہریلی گیسوں کے اخراج کو کم سے کم کرنا ہو گا۔
سیکرٹری جنرل انٹونیو گوٹریس نے اس ضمن میں دنیا بھر میں کی گئی کوششوں کو ناکافی قرار دیا۔
انہوں نے خبر دار کیا کہ اگر ہم نے ماحولیاتی تبدیلییوں کے اس رجحان کو نہ بدلا تو ہمیں درجہ حرارت میں تین ڈگری کی تباہ کن حد تک اضافے کا سامنا کرنا پڑے گا۔
انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں 2021 سال ایک فیصلہ کن سال ہو گا اور اس امید کا اظہار کیا کہ امریکہ ان کوششوں کا حصہ بنے گا جن کا ہدف فضا میں کاربن کے اخراج کو سال 2050 تک صفر کی سطح پر لانا ہے۔