اقوام متحدہ آئندہ ہفتے پاکستان کے سیلاب سے متاثر ہ افراد کی ہنگامی ضروریات پوری کرنے کے لیے مزید 80 کروڑ ڈالر کی اپیل کرے گا ۔
جمعے کو اقوام متحدہ کے پاکستان میں نمائندے جولین ہارنیس نے عالمی ادارۂ صحت ڈبلیو ایچ او، یونیسف اور پاکستان میں کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیموں کے نیٹ ورک کے نمائندے کے ساتھ ایک مشترکہ نیوز کانفرنس کے دوران اس با ت کا اعلان کیا ہے۔
اقوام متحدہ کی طرف سے پاکستان میں سیلاب متاثرین کی فوری اور ہنگامی ضروریات کے لیے مزید امداد کی تازہ اپیل ایک ایسے وقت کی جائے گی جب پاکستان میں حالیہ مون سون بارشوں کی وجہ سے آنے والے شدید سیلاب کے باعث لگ بھگ تین کروڑ سے زائد افراد کے لیے صحت عامہ کے مسائل پیدا ہوگئے ہیں۔
اقوامِ متحدہ کے نمائندے جولین ہارنیس نے سیلاب سے متاثر ہ علاقوں میں صحت عامہ کی صورتِ حال کے بارے میں شدید تشویس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ان علاقوں میں ملیریا اور ڈینگی، اسہال اور خسرے کے کیسز میں اضافہ ہورہا ہے۔ جبکہ چھوٹے بچے غذائت کی کمی کا شکار ہیں جو ان کی صحت کے لیے نہایت تشویش کی بات ہے۔
جولین ہارنیس کا کہنا تھا کہ آئندہ نو ماہ کے لیے پاکستان میں سیلاب سے متاثرہ افراد کی ہنگامی اور صحت عامہ کی ضروریات پوری کرنے کے لیے کروڑوں ڈالر درکار ہو ں گے ۔ اگر اس مد میں درکار فنڈز فوری طور پر فراہم نہ ہوئے تو متاثرین کے لیے امدادی اور بحالی کی کارروائیاں جاری رکھنے میں شدید مشکلات کا سامنا ہوگا۔
SEE ALSO: سیلاب زدگان کے لیے بیرون ممالک کی امداد کے وعدے کیسے وفا ہوں گے؟انہوں نے کہا کہ اقوامِ متحدہ اپنے رکن ممالک اور بین الاقوامی اداروں سے آئندہ ہفتے مزید 80 کروڑ ڈالر کی اپیل کرے گا جو ان کے بقول، آئندہ نو ماہ کے لیے درکار ہیں۔
بچوں کے لیے فوری امداد کی ضرورت
دوسری جانب یونیسیف کا کہنا ہے کہ سیلاب سے متاثرہ 34 لاکھ بچوں کی زندگی بچانے کے لیے فوری امدادکی ضرورت ہے۔
یونیسیف کے پاکستان میں نائب نمائندہ ڈاکٹر انوسا کبور کا کہنا تھا کہ پاکستان کے سیلاب سے متاثرہ 84 اضلاع میں تقریباً چار لاکھ بچے شدید غذائی قلت کا شکار ہیں۔ جب کہ ملک میں مجموعی طور پر پہلے ہی 40 فی صد بچوں کو غذا کی کمی کا سامنا ہے۔
ڈاکٹر انوسا کبور نے کہا کہ سیلاب زدہ علاقوں میں بچوں کو آلودہ پانی پینے سے لاحق ہونے والی بیماریوں سے نمٹنے کے لیے فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔تاہم ان کے مطابق اس چیلنج سے نمٹنے کے لیے فنڈنگ کافی نہیں ہے۔
پاکستان میں عالمی ادارۂ صحت کے مشن کے سربراہ ڈاکٹر پالیتھا ماہی پالا نے کہا کہ سیلاب سے پاکستان میں بڑے پیمانے پر صحتِ عامہ کے مراکز غیر فعال ہونے کے باعث علاج معالجے کی فراہمی متاثر ہوئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ لگ بھگ صحت عامہ کے 2 ہزار مراکز کو جزوی یا کلی طورپر نقصان پہنچا ہے۔ ان مراکز کی ہنگامی بنیادوں پر بحالی بہت ضروری ہے کیوں کہ موجودہ حالات میں موبائل میڈیکل کیمپ کافی نہیں ہوں گے۔
Your browser doesn’t support HTML5
بحالی اور رزگار کی فراہمی کا چیلنج
پاکستا ن میں غیر سرکاری تنظیموں کے مشترکہ ’نیشنل ہیومینٹرین نیٹ ورک‘ کے نمائندے لیاقت علی کا کہنا تھا کہ سیلاب کی وجہ سے نقل مکانی کرنے والے لاکھوں افراد کو یہ بھی تشویش ہے کہ وہ زندگی کو کیسے معمول پر لائیں گے کیوں کہ لوگوں کے روزگار اور ذرائع آمدن بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔ہنگامی امداد کے علاوہ سیلاب سے متاثر ہ افراد کی بحالی بھی نہایت اہم معاملہ ہوگا۔
یادر ہے کہ پاکستان میں آنے والے شدید سیلاب کے بعد اگست کے اواخر میں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس کے دورۂ پاکستان کے دوران عالمی ادارے نے پاکستان کے ساتھ مل کر سیلاب متاثر ین کی ہنگامی امداد کے لیے 16 کروڑ ڈالر کی اپیل کی تھی۔
جمعے کو نیوز کانفرنس کے دوران اقوام متحدہ کے نمائندے ہارنیس نے بتایا کہ اس پیل کے بعد لگ بھگ نو کروڑ ڈالر مل چکے ہیں تاہم سیلاب متاثرین کی ہنگامی امدد کے لیے یہ رقم کافی نہیں ہے۔ وہ توقع کرتے ہیں کہ عالمی برادری پاکستان کو مزید امداد فراہم کرے گی ۔