عراق کے لیے اقوامِ متحدہ کے نمائندہ خصوصی نیکولے مِلادینوو نے سلامتی کونسل کو بتایا کہ دہشت گرد ملک میں تشدد کی ویسی ہی صورت حال پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جیسا کہ 2006ء اور 2008ء کے درمیان تھی۔
اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل نے عراق میں حالیہ ہفتوں کے دوران بڑی تعداد میں حملوں کی مذمت کی ہے، جب کہ عراق میں اقوامِ متحدہ کے مشن کے سربراہ نے دہشت گردی کے خطرے کے سدِ باب اور ہمسایہ ملک شام میں جاری بحران کو حل کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔
عراق کے لیے نمائندہ خصوصی نیکولے مِلادینوو نے پیر کو سلامتی کونسل کے اجلاس سے خطاب میں کہا کہ عراق میں سب سے اہم چیلنج سلامتی کی بگڑتی ہوئی صورت حال ہے۔
’’سیاسی بحران سے یہ (صورت حال) مزید بگڑ گئی ہے۔ دہشت گرد اور مسلح گروہ اکثر و بیشتر اس کا فائدہ اٹھا رہے ہیں اور وہ اس غرض سے شہریوں کو نشانہ بناتے ہیں کہ اس سے فرقہ وارانہ نفرت پھیلائی جائے اور حکومت اور ملک کے منتخب اداروں کو کمزور کیا جائے۔‘‘
ملادینوو نے سلامتی کونسل کو بتایا کہ دہشت گرد عراق کے حصوں میں حکومت کی عملداری نہیں بننے دینا چاہتے اور ملک میں تشدد کی ویسی ہی صورت حال پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جیسا کہ 2006ء اور 2008ء کے درمیان تھی۔
عراق میں اقوامِ متحدہ کے مشن کے مطابق جولائی سے اب تک ملک میں لگ بھگ 9,000 شہری و عراقی سکیورٹی فورسز کے اہلکار ہلاک ہو چکے ہیں، اور 2008ء کے بعد ایک سال کے دوران ہلاکتوں کی یہ سب سے بڑی تعداد ہے۔
’’آج عراق کے چیلنجوں پر خطے کو لاحق دیگر خطرات سے الگ تھلک غور نہیں کیا جا سکتا۔ شام کے بحران کو قومی منصوبے کے تحت حل کرنا، اور مذہبی و فرقہ وارانہ انتہاپسندی کی تمام اشکال کے خلاف علاقائی حکمت عملی اختیار کرنا عراق میں استحکام کے لیے ناگزیر ہے۔‘‘
ملادینوو نے کہا کہ شام سے متعلق امن کانفرنس کا آئندہ برس انعقاد اور ایران کے جوہری پروگرام پر عبوری معاہدے کے خطے میں مثبت نتائج مرتب ہوں گے۔
اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ عراق خصوصاً شمالی کرد علاقے میں 200,000 سے زائد شامی پناہ گزین موجود ہیں۔
عراق کے لیے نمائندہ خصوصی نیکولے مِلادینوو نے پیر کو سلامتی کونسل کے اجلاس سے خطاب میں کہا کہ عراق میں سب سے اہم چیلنج سلامتی کی بگڑتی ہوئی صورت حال ہے۔
’’سیاسی بحران سے یہ (صورت حال) مزید بگڑ گئی ہے۔ دہشت گرد اور مسلح گروہ اکثر و بیشتر اس کا فائدہ اٹھا رہے ہیں اور وہ اس غرض سے شہریوں کو نشانہ بناتے ہیں کہ اس سے فرقہ وارانہ نفرت پھیلائی جائے اور حکومت اور ملک کے منتخب اداروں کو کمزور کیا جائے۔‘‘
ملادینوو نے سلامتی کونسل کو بتایا کہ دہشت گرد عراق کے حصوں میں حکومت کی عملداری نہیں بننے دینا چاہتے اور ملک میں تشدد کی ویسی ہی صورت حال پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جیسا کہ 2006ء اور 2008ء کے درمیان تھی۔
عراق میں اقوامِ متحدہ کے مشن کے مطابق جولائی سے اب تک ملک میں لگ بھگ 9,000 شہری و عراقی سکیورٹی فورسز کے اہلکار ہلاک ہو چکے ہیں، اور 2008ء کے بعد ایک سال کے دوران ہلاکتوں کی یہ سب سے بڑی تعداد ہے۔
’’آج عراق کے چیلنجوں پر خطے کو لاحق دیگر خطرات سے الگ تھلک غور نہیں کیا جا سکتا۔ شام کے بحران کو قومی منصوبے کے تحت حل کرنا، اور مذہبی و فرقہ وارانہ انتہاپسندی کی تمام اشکال کے خلاف علاقائی حکمت عملی اختیار کرنا عراق میں استحکام کے لیے ناگزیر ہے۔‘‘
ملادینوو نے کہا کہ شام سے متعلق امن کانفرنس کا آئندہ برس انعقاد اور ایران کے جوہری پروگرام پر عبوری معاہدے کے خطے میں مثبت نتائج مرتب ہوں گے۔
اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ عراق خصوصاً شمالی کرد علاقے میں 200,000 سے زائد شامی پناہ گزین موجود ہیں۔