روس مجوزہ قرارداد میں اقوام متحدہ کے چارٹر کی اس شق کی مخالفت کرتا ہے جس کے تحت معاہدے کے اطلاق کے لیے فوجی یا غیر فوجی کارروائی کی جا سکتی ہے۔
امریکہ اور روس کے اعلیٰ سفارت کاروں کے درمیان شام کے کیمیائی ہتھیاروں سے متعلق اقوام متحدہ میں پیش کی جانے والی قرارداد کے مسودے پر اتفاق نا ہو سکا۔
نیو یارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اجلاس کے موقع پر ہونے والی ملاقات میں دونوں ممالک کے وزراء خارجہ جان کیری اور سرگی لاوروف نے سلامتی کونسل میں پیش کی جانے والی اس مجوزہ قرارداد کے بارے میں بات چیت کی۔
امریکی عہدیداروں کے مطابق مسودے کے طرز بیان پر اختلاف برقرار ہے اور اقوام متحدہ میں دونوں ملکوں کے سفیروں کو اس بارے میں کام کرنے کا کہا گیا ہے۔
روس مجوزہ قرارداد میں اقوام متحدہ کے چارٹر کی اس شق کی مخالفت کرتا ہے جس کے تحت معاہدے کے اطلاق کے لیے فوجی یا غیر فوجی کارروائی کی جا سکتی ہے۔
حال ہی میں امریکہ اور روس میں اس بات پر اتفاق ہوا تھا کہ شام اپنے کیمیائی ہتھیار بین الاقوامی کنٹرول میں دے تاکہ انھیں تلف کیا جاسکے۔ مگر اس معاہدے پر عمل درآمد کے لیے اقوام متحدہ سے ایک قرارداد کی منظوری ضروری ہے۔
روس شام کا ایک اہم اتحادی ملک ہے اور وہ اس کے خلاف فوجی کارروائی کی مخالفت اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں شام پر قدغن لگانے جیسی متعدد کوششوں کو ویٹو کر چکا ہے۔
روس کے نائب وزیر خارجہ سرگی ریابکوف نے منگل کو کہا تھا کہ مجوزہ قرارداد میں طاقت کے استعمال یا قدغن لگانے سے متعلق شق کا ذکر صرف اس صورت میں کیا جا سکتا ہے کہ اگر امریکہ اور روس کے درمیان شام کے کیمیائی ہتھیاروں سے متعلق معاہدے کی کسی بھی طرف سے خلاف ورزی ہو۔
منگل کو جنرل اسمبلی سے خطاب میں امریکی صدر براک اوباما نے ان لوگوں کو تنقید کا نشانہ بنایا جنھیں شام میں صدر بشار الاسد کی حکومت کی طرف سے گزشتہ ماہ دمشق میں کیمیائی ہتیھاروں کے استعمال کرنے پر شک ہے۔ امریکی انٹیلی جنس کا کہنا ہے کہ اس حملے میں 1,400 افراد ہلاک ہوئے۔
دو سال سے زائد عرصے سے شام میں جاری خانہ جنگی کے باعث 20 لاکھ افراد دوسرے ملکوں میں پناہ لینے پر مجبور جبکہ دیگر 45 لاکھ اپنے گھربار چھوڑ کر ملک کے اندر مختلف محفوظ علاقوں کو منتقل ہو چکے ہیں۔
زیادہ تر وطن چھوڑنے والوں نے ہمسایہ ممالک اردن، لبنان، ترکی اور عراق میں پناہ لے رکھی ہے۔
نیو یارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اجلاس کے موقع پر ہونے والی ملاقات میں دونوں ممالک کے وزراء خارجہ جان کیری اور سرگی لاوروف نے سلامتی کونسل میں پیش کی جانے والی اس مجوزہ قرارداد کے بارے میں بات چیت کی۔
امریکی عہدیداروں کے مطابق مسودے کے طرز بیان پر اختلاف برقرار ہے اور اقوام متحدہ میں دونوں ملکوں کے سفیروں کو اس بارے میں کام کرنے کا کہا گیا ہے۔
روس مجوزہ قرارداد میں اقوام متحدہ کے چارٹر کی اس شق کی مخالفت کرتا ہے جس کے تحت معاہدے کے اطلاق کے لیے فوجی یا غیر فوجی کارروائی کی جا سکتی ہے۔
حال ہی میں امریکہ اور روس میں اس بات پر اتفاق ہوا تھا کہ شام اپنے کیمیائی ہتھیار بین الاقوامی کنٹرول میں دے تاکہ انھیں تلف کیا جاسکے۔ مگر اس معاہدے پر عمل درآمد کے لیے اقوام متحدہ سے ایک قرارداد کی منظوری ضروری ہے۔
روس شام کا ایک اہم اتحادی ملک ہے اور وہ اس کے خلاف فوجی کارروائی کی مخالفت اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں شام پر قدغن لگانے جیسی متعدد کوششوں کو ویٹو کر چکا ہے۔
روس کے نائب وزیر خارجہ سرگی ریابکوف نے منگل کو کہا تھا کہ مجوزہ قرارداد میں طاقت کے استعمال یا قدغن لگانے سے متعلق شق کا ذکر صرف اس صورت میں کیا جا سکتا ہے کہ اگر امریکہ اور روس کے درمیان شام کے کیمیائی ہتھیاروں سے متعلق معاہدے کی کسی بھی طرف سے خلاف ورزی ہو۔
منگل کو جنرل اسمبلی سے خطاب میں امریکی صدر براک اوباما نے ان لوگوں کو تنقید کا نشانہ بنایا جنھیں شام میں صدر بشار الاسد کی حکومت کی طرف سے گزشتہ ماہ دمشق میں کیمیائی ہتیھاروں کے استعمال کرنے پر شک ہے۔ امریکی انٹیلی جنس کا کہنا ہے کہ اس حملے میں 1,400 افراد ہلاک ہوئے۔
دو سال سے زائد عرصے سے شام میں جاری خانہ جنگی کے باعث 20 لاکھ افراد دوسرے ملکوں میں پناہ لینے پر مجبور جبکہ دیگر 45 لاکھ اپنے گھربار چھوڑ کر ملک کے اندر مختلف محفوظ علاقوں کو منتقل ہو چکے ہیں۔
زیادہ تر وطن چھوڑنے والوں نے ہمسایہ ممالک اردن، لبنان، ترکی اور عراق میں پناہ لے رکھی ہے۔