افغانستان میں گزشتہ دو برسوں میں میڈیا اور انسانی حقوق کی سرگرمیوں سے وابستہ 65 کارکنوں کی ہلاکت ہوئی اور ملک میں امن مذاکرات کے دوران بھی ہلاکتوں کا یہ سلسلہ جاری ہے۔
ستمبر 2020 میں شروع ہونے والی جنگ کے خاتمے اور امن کے قیام کے لیے بین الافغان مذاکرات کے دوران اب تک دونوں شعبوں میں کام کرنے والے 11 افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔
کابل میں اقوام متحدہ کے امدادی مشن کے دفتر نے پیر کو کہا کہ کسی بھی طرف سے ان ہلاکتوں کی ذمہ داری قبول نہ کرنے کے باعث عوام میں خوف کی کیفیت پائی جاتی ہے۔
اقوام متحدہ کی رپورٹ میں یہ اعداد و شمار یکم جنوری 2018 سے 31 جنوری 2021 کے عرصے کے دوران اکٹھے کیے گئے۔
تشدد کے اس رجحان نے صحافت اور انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والوں پر گھیرا تنگ کر دیا۔ نیتجتاً کئی صحافیوں نے اپنے پیشہ وارانہ کام میں خود ہی اظہار رائے کو دبا دیا، بہت سے لوگ ان شعبوں سے الگ ہو گئے اور اپنی برادریوں اور گھروں سے دور جا بسے۔ کچھ نے ملک بھی چھوڑ دیا تاکہ وہ محفوظ رہ سکیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ان ہلاکتوں سے معاشرتی سطح پر امن کے لیے کی جانی والی کوششوں کے متعلق امیدیں بھی ماند پڑنے لگیں۔
اس خصوصی رپورٹ میں حملوں کی مختلف نوعیت پر بھی معلومات درج کی گئی ہیں۔
ہلاکتوں کی حالیہ لہر گزشتہ سال کے مقابلے میں اس طرح مختلف ہےکہ ماضی میں صحافیوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں کی اموات کسی حملے کی بجائے جائے وقوع کے قریب ہونے سے ہوئیں۔ یہ حملے عام طور پر خطے میں فعال داعش جیسے منظم جنگجو گروہ کرتے تھے جن میں دھماکہ خیز آلات و مواد استعمال کیے جاتے تھے۔
افغانستان کے لیے اقوام متحدہ کی نمائندہ خصوصی ڈیبرا لیان نے کہا ہے کہ صحافت سے وابستہ پیشہ ور کارکن اور انسانی حقوق کے علمبردار ملک کے لیے بہت اہمیت رکھتے ہیں۔
SEE ALSO: أفغانستان میں ایک اور صحافی کی پراسرار ہلاکتانہوں نے موجودہ تناظر کے حوالے سے کہا کہ ایسے وقت میں جب ملک کو جنگ کے خاتمے کے لیے مذاکرات اور سیاسی حل کی ضرورت ہے، صحافیوں اور انسانی حقوق کے علمبرداروں کو خاموش کرانے کی بجائے ان کی آواز کو سننا بہت اہمیت رکھتا ہے۔
انہوں نے زور دیا کہ ایک فعال سول سوسائٹی افغان عوام کا حق اور ان کی ضرورت ہے اور انہیں ایک ایسا معاشرہ چاہیے جہاں لوگ بلا خوف و خطر اپنے خیالات کا تحریر اور آواز کے ذریعے کھلم کھلا اظہار کر سکیں۔
اس سلسلے میں رپورٹ میں تجویز کیا گیا ہے کہ افغان حکومت کو چاہیے کہ وہ حفاظتی اقدامات اٹھائے تاکہ ان شعبوں میں سرگرم لوگوں کو ڈرانے دھمکانے اور ان کی زندگیوں کو درپیش خطرات سے بچایا جا سکے۔
رپورٹ میں افغان طالبان پر زور دیا گیا ہے کہ وہ ایسی پالیسیاں اپنائیں جو صحافیوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں کو نقصان پہنچانے کی ممانعت کریں اور ایسی پالیسیوں کو ترک کر دیں جو سول سوسائٹی کے لیے جگہ کم کرنے کا باعث بنتی ہیں۔
اس ضمن میں رپورٹ میں بین الاقوامی برادری سے بھی کہا گیا ہے کہ وہ معاشرے کے ان اہم لوگوں سے روابط رکھیں اور ایسے پروگراموں کی حمایت کریں جو صحافیوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں کے سفر، مالی اور سلامتی کے امور میں ان کے معاون ثابت ہوں۔ ان کے کام کرنے کی صلاحیت کو مستحکم کریں اور ان کی مدد کریں۔
رپورٹ میں تمام غیر ریاستی کرداروں سے کہا گیا ہے کہ وہ ان دو شعبوں کے لوگوں کی ہلاکتوں سے باز رہیں اور انسانیت کے اصولوں کی پاسداری کرتے ہوئے ان کی حفاظت کو یقینی بنائیں۔