اقوامِ متحدہ کی ایک تازہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ افغانستان کے حراستی مراکز میں قید تقریباً ایک تہائی قیدیوں کو کسی نہ کسی انداز میں تشدد یا برے سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
تشدد سے متعلق اقوامِ متحدہ کی بدھ کو جاری ہونے والی 'ٹارچر رپورٹ' میں کہا گیا ہے کہ حراستی مراکز میں رکھے گئے آدھے سے زیادہ افراد کا تعلق افغانستان کے جنوبی صوبے قندھار سے ہے، جو طالبان کا ایک اہم مرکز ہے۔
اقوامِ متحدہ نے جبری گمشدگیوں سمیت سنجیدہ نوعیت کی شکایتوں پر اپنی گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔
افغانستان کے لیے اقوامِ متحدہ کے امدادی مشن 'یو این اے ایم اے' اور اقوامِ متحدہ کے انسانی حقوق کے ادارے نے افغان عقوبت خانوں میں اذیت رسانی سے متعلق شش ماہی رپورٹ میں کہا ہے کہ افغانستان کی جیلوں میں قید افراد کو اذیت ناک سزائیں دینے کا سلسلہ جاری ہے اور اس سے متعلق ضابطے کی کارروائیوں کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔
اگرچہ اذیت رسانی اور برا سلوک کرنا افغانستان اور بین الاقوامی قانون کے تحت منع ہے، تاہم یہ سلسلہ افغانستان کے قید خانوں میں بدستور جاری ہے۔
یواین اے ایم اے نے گزشتہ مدت کے مقابلے میں نئی ششماہی میں ان الزامات میں تین فیصد کمی ہونے کا عندیہ دیا ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کی افغانستان کیلئے نمائندہ خصوصی اور یو این اے ایم اے کی سربراہ ڈیبرا لیونز نے کہا ہے کہ اذیت رسائی کا کسی بھی حالت میں دفاع نہیں کیا جا سکتا ۔ تاہم افغانستان کی بعض وزارتوں اور اداروں نے کچھ اقدامات کیے ہیں ۔لیکن ابھی اس عمل کو ختم کرنے کیلئے بہت کچھ کیا جانا باقی ہے۔
ڈیبرا لینز کا کہنا تھا کہ بد سلوکی اور تشدد روا رکھنے والوں کو ہر صورت کیفر کردار تک پہنچانا چاہئیے۔
رپورٹ میں یکم جنوری سے 31 مارچ کے دوران سیکیورٹی اور دہشت گردی سے متعلق الزامات کے تحت زیر حراست افراد کے ساتھ کیے جانے والے سلوک کا جائزہ لیا گیا ہے۔
31 جنوری کے بعد کرونا وائرس کی وجہ سے اقوام متحدہ کے کارکنوں کو قید خانوں کا دورہ کرنے سے روک دیا گیا تھا۔ تاہم رپورٹ میں زیرحراست 565 مردوں، چھ عورتوں، 82 بچوں اور تین بچیوں سے افغانستان کے 24 صوبوں میں موجود 63 قیدخانوں میں لیے گئے انٹرویو شامل ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ افغان حکومت کو جیل خانوں اور حراستی مراکز میں تشدد روکنے کے لیے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے جس میں اہل کاروں کی تربیت، قید خانوں کے لیے وسائل اور ان کی گنجائش میں اضافے سمیت دیگر اقدامات شامل ہیں۔
رپورٹ میں صرف افغان حکومت کے قید خانوں کا جائزہ پیش کیا گیا ہے اور طالبان یا حکومت مخالف عناصر کے قید خانوں کو رسائی نہ ملنے کے باعث شامل نہیں کیا گیا۔