اقوام متحدہ کے ایک سینیئر عہدے دار نے کہا ہے کہ داعش کے شام کے شہر رقہ میں تقریباً 20 ہزار شہریوں کو یرغمال بنا رکھا ہے جن کی زندگیاں سخت خطرے میں ہیں اور انہیں وہاں سے نکالنے کے لیے ہر ممکن اقدامات کیے جانے چاہییں۔
شام کے لیے اقوام متحدہ کے خصوصی مشیر جین انگلیڈ نے جمعرات کو بتایا کہ رقہ کے ان پانچ مضافاتی علاقوں میں پھنسے ہوئے شہریوں کو مدد کی ضرورت ہے جو اس وقت داعش کے کنٹرول میں ہیں۔
اقوام متحدہ کے عہدے دار نے محصور شہریوں کے تحفظ کے اقدامات نہ ہونے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ فورسز کی جانب سے رقہ کو داعش سے چھڑانے کے لیے جاری مہم سے شہریوں کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوگیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ شام کی سرکاری فورسز کی جانب سے بھاری توپ خانے کی بمباری اور امریکی قیادت کے فضائی حملوں سے بڑے پیمانے پر عام شہری ہلاک ہو رہے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ حقیقت یہ ہے کہ ان شہریوں کے لیے فرار کا کوئی راستہ نہیں ہے۔ مجھے اس وقت کرہ ارض پر ان پانچ مضافاتی علاقوں کے سے زیادہ ابتر جگہ کوئی اور دکھائی نہیں دے رہی جہاں 20 ہزار لوگ پھنسے ہوئے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اقوام متحدہ انسانی ہمدردی کی مدد فراہم کرنے والوں پر یہ زور دے رہا ہے کہ جیسے بھی ممکن ہو سکے ان لوگوں تک امداد پہنچائی جائے۔
انگلینڈ کا کہنا تھا کہ انسانی بنیادوں پر جنگ زدہ علاقوں سے لوگوں کو نکلنے میں مدد دینے کے لیے لڑائی بند کرنا ضروری ہے، لیکن جنگ روکنے میں مشکلات درپیش ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ داعش کے خود ساختہ دارلخلافہ میں بات چیت کے لیے اقوام متحدہ کا کوئی نمائندہ موجود نہیں ہے۔
انہوں نے بتایا کہ اگر ہم حلب کی مثال سامنے رکھیں تو وہاں جنگ میں وقفہ دینا ممکن تھا، لیکن رقہ میں داعش کے جنگجوؤں کے ساتھ اقوام متحدہ کا کوئی رابطہ کار نہیں ہے، جو وہاں کے شہریوں کو بے دردی سے انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔
انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے ایک گروپ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جون میں رقہ کی لڑائی شروع ہونے کے بعد سے اب تک سینکڑوں عام شہری یا تو مارے جا چکے ہیں یا زخمی ہوئے ہیں۔