لبنان میں موجود اقوامِ متحدہ کی امن فوج کی ذمہ داری کیا ہے؟

اقوامِ متحدہ کے امن دستے بلیو لائن پر نگرانی کے دوران پیٹرولنگ کرتے رہتے ہیں۔ (فائل فوٹو)

  • لبنان کے جنوبی علاقوں میں اسرائیلی سرحد پر 1978 سے اقوامِ متحدہ کے امن دستے تعینات ہیں۔
  • امن دستوں کو اقوامِ متحدہ کی لبنان میں عبوری فورس (یو این آئی ایف آئی ایف) کہا جاتا ہے۔
  • اس عبوری فورس میں 50 ملکوں کے 10 ہزار اہلکار اور لگ بھگ 800 سویلین اسٹاف خدمات انجام دے رہا ہے۔
  • امن دستوں کو سیکیورٹی کونسل کی قرارداد 1701 کے تحت مینڈیٹ دیا گیا ہے۔

لبنان کے جنوبی علاقوں پر 1978 میں اسرائیل کے حملوں کے بعد سرحدی کشیدگی کے خاتمے کے لیے اقوامِ متحدہ کی امن فوج کے دستے تعینات کیے گئے تھے جو تاحال اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں۔

اقوامِ متحدہ کی عبوری فورس کے امن دستے لبنان کے شمال میں دریائے اللیطانی سے جنوب میں بلیو لائن تک تعینات ہیں۔

اس عبوری فورس میں 50 ممالک کے لگ بھگ 10 ہزار اہلکار اور 800 سویلین شامل ہیں۔

امن دستوں کو اقوامِ متحدہ کی لبنان میں عبوری فورس (یو این آئی ایف آئی ایف) کہا جاتا ہے۔ اقوامِ متحدہ کی 15 رکنی سیکیورٹی کونسل ہر برس اس عبوری فورس کے مینڈیٹ کی تجدید کرتی ہے۔

بلیو لائن کیا ہے؟

بلیو لائن اس سرحد کو کہا جاتا ہے جو لبنان کو اسرائیل اور اس کے زیرِ قبضہ گولان کی پہاڑیوں سے الگ کرتی ہے۔

اسرائیل کی فوج نے 24 سال قبل سال 2000 میں لبنان سے انخلا کیا تھا اور وہ اس بلیو لائن سے پیچھے چلی گئی تھی۔

اس بلیو لائن کو کسی بھی طرف سے زمین یا فضا سے بغیر کسی اجازت کے عبور کرنا اقوامِ متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کی قرارداد نمبر 1701 کی خلاف ورزی قرار دیا جاتا ہے۔

لبنان کی عسکری تنظیم حزب اللہ اور اسرائیل میں 2006 میں ایک ماہ کی طویل جنگ ہوئی تھی۔ اس جنگ کے بعد سیکیورٹی کونسل نے ایک قرارداد منظور کی تھی جس کے ذریعے اس عبوری فورس کے مینڈیٹ میں توسیع کی گئی تھی۔ اس قرارداد کو 1701 قرارداد بھی کہا جاتا ہے۔

امن دستوں کو کیا مینڈیٹ دیا گیا ہے؟

سیکیورٹی کونسل کی قرارداد 1701 عبوری فورس کے امن دستوں کو ان کے لیے مخصوص علاقوں میں لبنان کی فوج کی معاونت کا مینڈیٹ دیتی ہے۔ ان علاقوں کو اسلحے یا مسلح افراد سے پاک رکھنا عبوری فورس کی ذمہ داری ہے۔

قرارداد 1701 کے اختیارات کے تحت جن علاقوں میں امن دستے تعینات ہیں وہاں انہیں اپنی استعداد کے مطابق کام کرنے کا پابند بنایا گیا ہے تاکہ یہ علاقہ کسی بھی قسم کی دشمنی پر مبنی سرگرمیوں کے لیے استعمال نہ ہو سکے۔

لبنان کے دیگر خطوں کے برعکس جنوبی علاقوں پر لبنانی فوج کی موجودگی کے باوجود لبنانی عسکری تنظیم حزب اللہ کا مؤثر کنٹرول ہے۔

حزب اللہ جہاں بھاری ہتھیاروں اور میزائلوں سے لیس تنظیم ہے۔ وہیں اس کا لبنان کی سیاست میں کردار ہے اور یہ ملک کی طاقت ور سیاسی قوت بھی ہے۔

قرارداد 1701 کی خلاف ورزی پر کیا ہوتا ہے؟

لبنان کے جن علاقوں میں عبوری فورس کے امن دستے موجود ہیں وہاں پر ہونے والی تمام خلاف ورزیوں کو سیکیورٹی کونسل کو رپورٹ کرنا لازم ہے۔

اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل عمومی طور پر ہر چار ماہ میں اس حوالے سے رپورٹ ارسال کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ اگر ضروری ہو تو سیکریٹری جنرل قرارداد 1701 پر عمل درآمد کے لیے کسی بھی وقت اس حوالے سے سیکیورٹی کونسل کو رپورٹ کر سکتے ہیں۔

عبوری فورس کی ویب سائٹ پر موجود معلومات کے مطابق امن دستے بلیو لائن کی نگرانی کے دوران احتیاطی تدابیر اختیار کرتے ہیں جس میں زمین کے ساتھ اس کی فضائی حدود بھی شامل ہے۔ اس دوران کسی بھی خلاف ورزی کو روکنے کے لیے وہ پیٹرولنگ کرتے ہیں اور رابطہ کاری کا سہارا لیتے ہیں۔

دستیاب معلومات کے مطابق امن دستوں کو جب بھی کسی خلاف ورزی کا اندیشہ ہوتا ہے یا وہ اس کی نشان دہی کرتے ہیں تو فریقین میں تصادم سے بچنے اور صورتِ حال کو کنٹرول میں رکھنے کے لیے اس مقام پر فوری طور پر اضافی دستے تعینات کر دیے جاتے ہیں۔

امن دستوں کے اسرائیل اور لبنان کی افواج سے رابطے رہتے ہیں تاکہ وہ بھی کشیدگی کو بڑھنے سے روک سکیں۔

اب تک کیا خلاف ورزیاں ہوئی ہیں؟

اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل کی جانب سے سیکیورٹی کونسل کو ارسال کی جانے والے رپورٹس میں اکثر دونوں جانب سے قرارداد 1701 کی خلاف ورزیاں رپورٹ کی جاتی ہیں۔

نومبر 2022 میں سیکیورٹی کونسل کو ارسال کی گئی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ حزب اللہ اور دیگر عسکری گروہوں کے پاس موجود اسلحہ ریاست کے کنٹرول میں نہیں ہے اور یہ تنظیمیں اس اسلحے کی دیکھ بھال بھی خود کرتی ہیں۔ یہ قرارداد کی ایک مسلسل اور سنگین خلاف ورزی ہے۔

اسی رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ لبنان کی فضائی حدود میں اسرائیل کے جنگی جہازوں اور ڈرونز کا مسلسل داخلہ بھی گہری تشویش کا باعث ہے۔

اقوامِ متحدہ کی رپورٹ کے مطابق امن دستوں کی آزادانہ نقل و حرکت میں بھی مسلسل رکاوٹیں ڈالی جاتی ہیں۔

اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل کی جانب سے حالیہ رپورٹ رواں برس جولائی میں سیکیورٹی کونسل کو ارسال کی گئی تھی۔ اس رپورٹ میں بھی یہی تمام خلاف ورزیاں رپورٹ کی گئی تھیں۔