اقوام متحدہ کے ایک اعلیٰ تفتیش کار نے امریکہ سے مشتبہ اسلامی عسکریت پسندوں کے خلاف سی آئی اے کے ڈرون میزائل حملے بند کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
ماورائے عدالت ہلاکتوں کے معاملات پر اقوام متحدہ کے خصوصی عہدےدار فلپ ایلسٹن نے کہا ہے کہ اس طرح ہدف بنا کر، کی جانے والی ہلاکتوں کی اجازت اکثر اوقات مسلح لڑائیوں کے دوران دی جاتی ہے، اور امریکہ یہ خفیہ حملے میدان جنگ سے دور دراز کے علاقوں میں کررہاہے۔ انہوں نے بدھ کے روز اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں ڈورن حملوں پر اپنی 29 صفحات پر مشتمل رپورٹ پیش کی۔
اپنی رپورٹ میں، مسٹر ایلسٹن نے کہا ہے کہ سی آئی اے کے خفیہ حملوں کا کوئی سرکاری احتساب نہیں ہے اور بین الاقوامی برداری کو یہ علم نہیں ہے کہ امریکی انٹیلی جنس کے ادارے کو ان ہلاکتوں کا اختیار کس نے دیا ہے ۔اہداف کا انتخاب کس بنیاد پر کیا جاتا ہے اور کیا ایسی ہلاکتیں قانونی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ بھی معلوم نہیں ہے کہ جب شہری غیر قانونی طورپر ہلاک ہوتے ہیں تو سی آئی اے اس کے بعد کیا کرتی ہے۔
سی آئی اے کا دعویٰ ہے کہ اس کی تمام کارروائیاں قانونی ہیں۔
اوباما انتظامیہ نے پاکستان اور افغانستان کی سرحد کے ساتھ واقع قبائلی پٹی پر القاعدہ اور طالبان کے خفیہ ٹھکانوں کو ہدف بنا کر ڈرون حملوں کے استعمال میں اضافہ کردیاہے۔
پاکستان کی حکومت نے ان حملوں پر اعتراض کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ اس کے اقتدار اعلیٰ کی خلاف ورزی ہیں۔
اِس طرح ہدف بنا کر، کی جانے والی ہلاکتوں کی اجازت اکثر اوقات مسلح لڑائیوں کے دوران دی جاتی ہے، اور امریکہ یہ خفیہ حملے میدان جنگ سے دور دراز کے علاقوں میں کررہاہے: فلپ ایلسٹن