ایران جوہری معاہدے پر عمل پیرا ہے: عالمی ادارہ برائے جوہری توانائی

فائل

اقوام متحدہ کا جوہری توانائی کا ادارہ اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ 2015 ء کے بین الاقوامی معاہدے پر عمل درآمد کرتے ہوئے ایران اپنے جوہری پروگرام کو محدود کر رہا ہے، جس کا مقصد نیوکلیئر ہتھیار تشکیل دینے کے کام کو ترک کرنا ہے۔

جوہری تونائی کے بین الاقوامی ادارے کی جانب سے جمعرات کو جاری ہونے والی سہ ماہی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ایران معاہدے کے کلیدی پہلوؤں کی پابندی کر رہا ہے جو اُس نے امریکہ، چین، روس، فرانس، جرمنی، برطانیہ اور یورپی یونین کے ساتھ کیا تھا، جس کے عوض اسلامی جمہوریہ کی معیشت پر لاگو تعزیرات اٹھائی گئیں۔

امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے سمجھوتے میں موجود ’’تباہ کُن جھول‘‘ پر نکتہ چینی کی ہے۔

اُنھوں نے اُن ملکوں پر زور دیا ہے جو ایران کے ساتھ سمجھوتے کے حامی تھے کہ اس میں بہتری لانے کی کوشش کیں؛ لیکن اُنھوں نے صدر پر نکتہ چینی کرتے ہوئے معاہدے کی حمایت جاری رکھی ہے۔ ٹرمپ نے امریکہ کی جانب سے معاہدے سے باہر نکلنے کی دھمکی دے رکھی ہے، اور مئی تک اس پر دوبارہ غور کی ڈیڈلائن دے ہے آیا ایران کے خلاف تعزیرات کو پھر سے عائد کیا جائے۔

جمعرات کو لندن میں تقریر کرتے ہوئے، ایران کے معاون وزیر خارجہ عباس عراقچی نے کہا ہے کہ سمجھوتے کے بارے میں ٹرمپ کی شکایات معاہدے کی شرائط کی خلاف ورزی ہے، جس کے نتیجے میں اُن کے ملک کو نئی بیرونی سرمایہ کاری کے حصول میں دقت پیش آرہی ہے۔

اُنھوں نے دھمکی دی کہ ایران معاہدے سے باہر نکل جائے گا، چاہے ٹرمپ پھر سے ایران پر نئی پابندیاں عائد کردیں۔

عراقچی نے کہا کہ ’’اگر (معاہدے) کے بارے میں الجھن اور غیر یقینی کی یہی پالیسی جاری رہتی ہے، اگر کمپنیاں اور بینک ایران کے ساتھ کام نہیں کرتے، تو ہم ایسے معاہدے سے کیوں بندھے رہیں جس سے ہمیں کوئی فائدہ حاصل نہ ہوتا ہو۔ حقیقت یہی ہے‘‘۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایران نے کم افزودہ یورینئم اور بھاری پانی کے ذخیرے کی حد میں اضافہ نہیں کیا، اور یورینئم کو 3.67 فی صد کی حد سے زیادہ افزودہ نہیں کیا، جیسا کہ سمجھوتے میں کہا گیا ہے۔

معاہدہ، جس کو طے کرنے کے لیے ایک طویل عرصے تک مذاکرات ہوتے رہے تھے، کا مقصد یہ تھا کہ جوہری بم تشکیل دینے کے لیے ایران کو درکار وقت کو بڑھایا جائے، تاکہ اگر وہ ایسا کرنے کا ارادہ کر بھی لے تو اسے چند ماہ کی جگہ اندازاً ایک سال لگے۔