انسانی جین کی تبدیلیوں پر ریسرچ کا عالمی ڈیٹا بیس بنانے کا مطالبہ

فائل فوٹو

عالمی ادارہ صحت نے پیر کے روز انسانی جین میں تبدیلیوں سے متعلق چند نئی تجاویز پیش کی ہیں، جن کے مطابق مطالبہ کیا گیا ہے کہ دنیا بھر میں جہاں بھی 'انسانی جین میں کسی بھی قسم کی تبدیلی کی جائے'، اس کا ریکارڈ رکھا جائے اور ایسی کوئی بھی ریسرچ، جس کے بارے میں غیر محفوظ یا اخلاقی طور پر نامناسب ہونے کا شائبہ ہو، اس کے بارے میں اطلاع دینے کا بھی میکینزم یا طریقہ کار وضع کیا جائے۔

عالمی ادارہ صحت نے 2018 میں ماہرین کے ایک گروپ کو اس کام کا ذمہ سونپا تھا جب چین کے ایک سائنسدان ہی جیانکوئی نے اعلان کیا تھا کہ انہوں نے دنیا میں پہلی بارجینیاتی طور پر تبدیل شدہ بچے (gene-edited babies) پیدا کئے ہیں۔

پیر کے روز شائع ہونے والی دو رپورٹس میں عالمی ادارہ صحت کے ماہرین نے کہا کہ انسان میں جینیاتی تبدیلی کی ہر طرح کی تحقیق کو عوامی طور پر شائع کرنا چاہئے۔ گو کہ ماہرین نے اس بات کو تسلیم کیا کہ اس طرح بھی بے اصول سائنسدانوں کو روکنا مشکل ہوگا۔

SEE ALSO: پیدائشی طور پر قوتِ مدافعت سے محروم بچوں کا 'ایڈز وائرس' سے کامیاب علاج

خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق ماہرین کے گروپ نے اپنی سفارشات میں لکھا ہے کہ سٹیم سیل ریسرچ کے میدان میں بے اصول کاروباری افراد اور کلینکس کی جانب سے کلینیکل تجربات کی رجسٹری کو جان بوجھ کر اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرنے کی مثالیں موجود ہیں۔ جس میں وہ ایسے پروسیجر بھی رجسٹر کرلیتے ہیں، جن کی منظوری باقاعدہ کلینیکل ٹرائلز سے حاصل نہیں کی گئی ہوتی۔

ماہرین کے گروپ نے عالمی ادارہ صحت سے یہ یقینی بنانے کا مطالبہ کیا ہے کہ اس کے ڈیٹا بیس میں شامل ہر جینیٹک ایڈیٹنگ ریسرچ کا جائزہ اور منظوری کا نظام ایک ایتھکس کمیٹی کے ذریعے وضع کیا جائے۔


جب چینی سائنسدان ہی جیانکوئی نے یہ اعلان کیا تھا کہ انہوں نے دو جڑواں بچوں کا ڈی این اے تبدیل کیا ہے تاکہ انہیں ایچ آئی وی سے محفوظ رکھا جا سکے، تو ان کی تحقیق سے جڑی یونیورسٹی کو اس کا علم نہیں تھا۔ اور انہوں نے اپنی تحقیق کے لیے خود سے سرمایہ جمع کیا تھا۔ چین کے اس سائینسدان کو "غیر قانونی طبی پریکٹس" کے الزام میں تین سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔

Your browser doesn’t support HTML5

جینیاتی امراض اور مصنوعی اعضا کو ٹیٹو سے کنٹرول کیا جائے گا

عالمی ادارہ صحت کے ماہرین نے یہ بھی تجویز کیا کہ عالمی ادارہ صحت کو ایسا طریقہ کار وضع کرنا چاہئے جس سے ایسی کسی تحقیق کے دوران قواعد کی خلاف ورزی کو رپورٹ کیا جا سکے۔

اس گروپ میں شامل سائنسدان رابرٹ لوویل بیج نے ایسے کئی واقعات کا ذکر کیا جن میں روس، یوکرین اور ترکی میں سائنسدانوں کو، جو متنازعہ نوعیت کے جینیٹک ایڈیٹنگ تجربات کرنے کا ارادہ کر رہے تھے، دباو ڈال کر اس منصوبے پر عمل درآمد سے باز رکھا گیا۔ کمیٹی نے زور دیا کہ ایسے واقعات کو رپورٹ کرنے کا نظام بہتر بنانے کی ضرورت ہے.

تاہم ماہرین کے گروپ نے اس بات کو تسلیم کیا کہ جوں جوں جینیاتی تبدیلیاں لانے کی تکنیک آسان اور سستی ہوتی جائے گی، عالمی ادارہ صحت کے لیے ایسی تحقیق کی نگرانی کے وسائل ناکافی ہوتے جائیں گے۔ جبکہ عالمی ادارہ صحت کے پاس صحت سے متعلق کسی ہنگامی صورتحال میں بھی کسی ملک کو خود سے تعاون پرمجبور کرنے کا اختیار نہیں ہے۔