اقوام متحدہ کے ایک سینئر عہدیدار نے بھارتی پارلیمنٹ سے منظور کردہ شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے نفرت انگیز تقریروں اور اقلیتوں کے خلاف امتیازی سلوک میں اضافہ ہوا ہے۔
نسل کشی روکنے سے متعلق اقوام متحدہ کے خصوصی مشیر اڈاما ڈینگ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ مذکورہ قانون میں اقلیتوں کو تحفظ فراہم کرنے کی جو بات کہی گئی ہے وہ قابل ستائش ہے لیکن تشویش کی بات یہ ہے کہ اس میں مسلمانوں کو شامل نہیں کیا گیا ہے۔
ان کے بقول انسانی حقوق سے متعلق بین الاقوامی قوانین کے تحت اور بالخصوص غیر امتیازی سلوک کے سلسلے میں بھارت پر جو ذمہ داری عائد ہوتی ہے مذکورہ قانون اس کے منافی ہے۔
اس سے قبل اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے سی اے اے پر تنقید کی تھی۔
انسانی حقوق سے متعلق اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر مائیکل بیچلیٹ نے اس قانون کے خلاف بھارتی سپریم کورٹ میں ایک اپیل دائر کی ہے اور درخواست کی ہے کہ سی اے اے کے خلاف جو عذرداریاں عدالت عظمیٰ میں داخل کی گئی ہیں اس معاملے میں انہیں بھی فریق بنایا جائے۔
یہ قانون دسمبر 2019 میں پارلیمنٹ سے منظور کیا گیا تھا۔ اس کے تحت پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان سے بھارت آنے والی اقلیتوں کو شہریت تفویض کی جائے گی۔ لیکن اس میں مسلمانوں کو شامل نہیں کیا گیا ہے جس کی وجہ سے بھارت میں اس کے خلاف شدید احتجاج کیا گیا۔
اس کی مخالفت کرنے والوں کا کہنا ہے کہ یہ قانون مذہب کی بنیاد پر شہریت تفویض کرتا ہے جب کہ بھارت کا آئین مذہب کی بنیاد پر شہریت دینے کے خلاف ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس قانون کا استعمال ملک گیر این آر سی میں کیا جائے گا جس کے بعد بڑی تعداد میں مسلمان اپنی شہریت کھو دیں گے۔
Your browser doesn’t support HTML5
اقوام متحدہ کے خصوصی مشیر نے احتجاجی مظاہروں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس قانون کی وجہ سے اقلیتوں اور ان کی عبادت گاہوں پر حملے ہوئے ہیں اور ان کے خلاف نفرت انگیز تقریریں بڑھی ہیں۔
نفرت انگیز تقریروں کے معاملے پر انہوں نے خاص طور پر حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے رکن پارلیمنٹ سبرامنین سوامی کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ان کے بیانات پریشان کن ہیں۔
سبرامنین سوامی نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ بھارت میں سب ہی شہری برابر نہیں ہیں۔ مسلمانوں ہندووں کے مساوی نہیں ہیں۔
اڈاما ڈینگ کا کہنا ہے کہ نفرت انگیز تقریریں اور اقلیتوں کے ساتھ امتیازی سلوک سمیت اس نوعیت کی دوسری باتیں انسانی حقوق کے بین الاقوامی قوانین اور اقدار کے منافی ہیں۔
یاد رہے کہ سبرامنین سوامی مسلم مخالف خیالات کے حامی سمجھے جاتے ہیں۔ وہ اکثر و بیشتر مسلمانوں کے خلاف بیانات دیتے رہتے ہیں۔
ممبئی میں جب 2013 میں سلسلے وار بم دھماکے ہوئے تھے تو انہوں نے انگریزی روزنامہ 'ڈی این اے' میں ایک مضمون لکھا تھا اور بھارت میں تمام مسجدوں کو منہدم کرنے کی وکالت کی تھی۔
اس کے علاوہ انہوں نے مسلمانوں سے ووٹ دینے کا حق چھیننے کا بھی مطالبہ کیا تھا۔
سبرامنین سوامی کہتے ہیں کہ صرف انہی مسلمانوں کو ووٹ دینے کا حق ملنا چاہیے جو یہ تسلیم کریں کہ ان کے اجداد ہندو تھے۔
ممبئی حملوں کے بعد بھی انہوں نے ایسا ہی ایک مضمون روزنامہ 'انڈین ایکسپریس' میں لکھا تھا جس پر کارروائی کرتے ہوئے ہارورڈ یونیورسٹی نے معاشیات میں پڑھائے جانے والے ان کے دو کورسز ختم کر دیے تھے۔
قومی کمیشن برائے اقلیتی امور نے 2011 میں ان کے مذہبی منافرت پر مبنی مضامین کی وجہ سے ان کے خلاف کیس قائم کیا تھا۔
عدالت نے اس شرط پر انہیں ضمانت دی تھی کہ وہ ایسے متنازع مضامین نہیں لکھیں گے۔
وہ بھارت کے زیر انتظام کشمیر سے دفعہ 370 کے خاتمے کے بھی زبردست حامی رہے ہیں۔
وہ ہندوؤں کے مذہب تبدیل کرکے دوسرے مذاہب میں اختیار کرنے کے بھی شدید خلاف ہیں جب کہ ہندوؤں کے مذہب کی تبدیلی کو قانونی طور پر روکنا چاہتے ہیں۔
اقوام متحدہ کے خصوصی مشیر نے اپنے بیان میں یہ بھی کہا ہے کہ اس وقت جب کہ پوری دنیا کرونا وائرس کے خلاف لڑ رہی ہے۔ نفرت اور تقسیم کی سیاست کے خلاف متحد رہنا پہلے کے مقابلے میں کہیں زیادہ ضروری ہے۔
نئی دہلی کے ایک معروف تھنک ٹینک ”انسٹی ٹیوٹ آف آبجکٹیو اسٹڈیز“ کے چیئرمین ڈاکٹر محمد منظور عالم نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ سی اے اے نہ صرف یہ کہ مسلم اقلیت کے خلاف ہے بلکہ یہ دستور کی دفعات کے بھی خلاف ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت میں سمیت دیگر ممالک میں اس قانون کے خلاف احتجاج کیا گیا۔
Your browser doesn’t support HTML5
انہوں نے کہا کہ دراصل نریندر مودی کی قیادت میں حکومت بھارت کو ایک ہندو ریاست بنانے کے لیے کوشاں ہے۔ دستور کی تمہید میں جو کچھ لکھا گیا ہے حکومت اس کے خلاف کام کر رہی ہے۔
ان کے بقول اس قانون کی منظوری کے بعد مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے خلاف نفرت انگیز تقریروں میں اضافہ ہوا ہے۔ اس کا مشاہدہ دہلی میں ہونے والے اسمبلی انتخابات کے دوران بھی کیا گیا تھا اور اب بھی جب کہ پوار ملک کرونا وائرس کے خلاف لڑ رہا ہے۔ اس کا مشاہدہ کیا جا رہا ہے۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ بھارت کا ہر وہ شہری جو دستور کی روح سے واقف ہے اور قانون کی بالادستی چاہتا ہے اس قانون کے خلاف ہے اور ایسے بیشتر لوگوں نے سی اے اے مخالف احتجاج میں حصہ لیا تھا۔
ان کے بقول جس طرح انگریزوں کے خلاف پورا ملک متحد ہو کر اٹھ کھڑا ہوا تھا اسی طرح اس قانون کے خلاف بھی سب اٹھ کھڑے ہوئے۔
انہوں نے مزید کہا کہ یہ ملک ہمیشہ امن و آشتی اور بھائی چارے کی بات کرتا رہا ہے۔ لیکن اس قانون کی وجہ سے لوگوں میں مسلمانوں کے خلاف نفرت پیدا ہوئی اور اس کا نتیجہ ہم آج بھی بھگت رہے ہیں۔