مجوزہ امن مذاکرات، براہیمی شام پہنچ گئے

عالمی ادارے کے خصوصی ایلچی نے لگ بھگ ایک سال بعد شام کا دورہ کیا ہے۔
شام کے لیے اقوامِ متحدہ اور عرب لیگ کے خصوصی ایلچی لخدار براہیمی فریقین کو امن مذاکرات پر قائل کرنے کی غرض سے دمشق پہنچ گئے ہیں۔

پیر کو شام کے دارالحکومت پہنچنے کے فوراً بعد جناب براہیمی نے نائب وزیرِ خارجہ فیصل المقداد سے ملاقات کی۔ خیال رہے کہ عالمی ادارے کے خصوصی ایلچی نے لگ بھگ ایک سال بعد شام کا دورہ کیا ہے۔

براہیمی کی دمشق آمد سے ایک روز قبل شام میں حکومت کے خلاف برسرِ پیکار جہادی گروپوں نے امن مذاکرات کی عالمی کوششوں پر کڑی تنقید کی تھی۔

مغربی ممالک کے حمایت یافتہ شامی حزبِ اختلاف کے اتحاد 'سیرین نیشنل کولیشن' نے بھی مجوزہ مذاکرات کے بارے میں تحفظات کا اظہار کیا ہے۔

شامی قومی اتحاد نے واضح کیا ہے کہ مذاکرات کے نتیجے میں صدر بشار الاسد کے اقتدار کےخاتمے کی یقین دہانی کرائے جانے کی صورت میں ہی اس کے نمائندے بات چیت میں شریک ہوں گے۔

شام میں گزشتہ ڈھائی برسوں سے جاری خانہ جنگی کے خاتمے کی غرض سے فریقین کو مجوزہ امن مذاکرات پر آمادہ کرنے کے لیے امریکہ، روس اور کئی دیگر مغربی حکومتیں کوشش کر رہی ہیں۔ فریقین کی آمادگی کی صورت میں مجوزہ امن کانفرنس نومبر کے وسط یا آخر میں جنیوا میں منعقد ہوگی۔

مغربی سفارت کاروں کی کوشش ہے کہ 'جنیوا 2' کے عنوان سے ہونے والی مجوزہ کانفرنس کے ذریعے تنازع کے فریقین کو شام میں ایک عبوری حکومت قائم کرنے اور اس کے تحت آزادانہ جمہوری انتخابات کرانے پر آمادہ کیا جائے۔

کانفرنس کے لیے علاقائی ممالک کی حمایت کے حصول کی غرض سے براہیمی نے حال ہی میں خطے کے کئی ملکوں کا دورہ کیا ہے۔ دمشق پہنچنے سے قبل عالمی ادارے کے خصوصی ایلچی نے ہفتے کو تہران میں ایرانی حکام کےساتھ بات چیت کی تھی۔

تہران میں اپنے ایک بیان میں جناب براہیمی نے کہا تھا کہ ایران کو بھی شام کے تنازع پر ہونے والے مجوزہ امن مذاکرات میں شرکت کی دعوت دی جانی چاہیے کیوں کہ ایسا کرنا، ان کے بقول، "فطری اور ضروری" ہے۔

خیال رہے کہ ایران صدر بشار الاسد کی حکومت کے چند اہم عالمی اتحادیوں میں سرِ فہرست ہے۔