اقوامِ متحدہ کی ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق نے مصر کی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اس ملکی نظام کو تبدیل کرے جس کے نتیجے میں بقول ان کے مصر میں بڑے پیمانے پر انسانی حقوق پامال کیے جارہے ہیں۔
منگل کے روز اپنے ایک بیان میں عالمی ادارے کے شعبہ انسانی حقوق کی سربراہ نیوی پیلے کا کہنا تھا کہ انہیں مصر میں جاری حالیہ مظاہروں کے دوران ہونے والی ہلاکتوں پر تشویش ہے اور وہ مصری پولیس اور فوج سے مظاہرین کے خلاف طاقت کے استعمال سے گریز کی اپیل کرتی ہیں ۔
اپنے بیان میں نیوی پیلے نے کہا کہ مصر میں صدر حسنی مبارک کے خلاف گزشتہ ہفتے شروع ہونے والے مظاہروں میں ہلاکتوں میں اضافے پر عالمی ادارے کو تشویش ہے۔
ان کے بقول ان کے ادارے کو ملنے والی غیر حتمی اطلاعات کے مطابق مصر میں جاری احتجاجی تحریک کے دوران اب تک 300 افراد ہلاک جبکہ تین ہزار سے زائد زخمی ہوچکے ہیں جبکہ سرکاری سیکیورٹی فورسز نے سینکڑوں مظاہرین کو حراست میں لے رکھا ہے۔
اقوامِ متحدہ کی اعلیٰ اہلکار کے ترجمان روپرٹ کول ویلے نے منگل کے روز صحافیوں کو بتایا کہ عالمی ادارے کا انسانی حقوق کمیشن مصر میں طاقت کے استعمال کی شدید مذمت کرنے کے ساتھ ساتھ مصری مظاہرین پر سیکیورٹی فورسز کے تشدد کی شفاف تحقیقات کا مطالبہ کرتا ہے۔
کول ویلے نے کہا کہ مصر میں 1981ءسے نافذایمرجنسی قوانین کے نتیجے سیکیورٹی فورسز اور دیگر ریاستی اداروں کو عوام کے بنیادی حقوق پامال کرنے کی کھلی چھٹی ملی ہوئی ہے جس کا سدِ باب کیا جانا چاہیے۔
ترجمان کےمطابق ہائی کمشنر پیلے نے مصری حکومت سے مواصلاتی نظام، انٹرنیٹ اور الجزیرہ سمیت دیگر میڈیا اداروں کی نشریات پر عائد پابندی اٹھانے اور صحافیوں کو ہراساں کرنے سے باز رہنے کا مطالبہ بھی کیا ہے۔
اقوامِ متحدہ کی ہائی کمشنر نے مصر میں جاری مظاہروں کو ’عوامی ‘ قرار دیتے ہوئے امید ظاہر کی ہے کہ ان کے ذریعے مصر میں ایک شفاف، آزاد اور جمہوری معاشرے کی قیام کی راہ ہموار ہوگی۔