یوکرین کے صدر پیتروپوروشینکو نے نیٹو ممالک خصوصاً جرمنی سے اپیل کی ہے کہ وہ روس کے ساتھ جاری کشیدگی کے پیشِ نظر بحیرۂ ازوو میں اپنے جنگی جہاز تعینات کریں۔
جرمن اخبار 'بِلڈ' کے ساتھ ایک انٹرویو میں یوکرینی صدر کا کہنا تھا کہ جرمنی ان کے ملک کا قریب ترین اتحادی ہے اور انہیں امید ہے کہ وہ اور نیٹو کے دیگر رکن ملک موجودہ صورتِ حال کے پیشِ نظر یوکرائن کی مدد اور اسے سکیورٹی دینے کے لیے اپنے بحری جہاز بحیرۂ ازوو میں تعینات کریں گے۔
روس اور یوکرین کے درمیان پہلے سے خراب تعلقات رواں ہفتے اس وقت مزید کشیدہ ہوگئے تھے جب روس نے بحیرۂ اسود سے بحیرۂ ازوو جانے والی یوکرائنی بحریہ کی تین کشتیوں کو خلیجِ کرچ کے مقام پر تحویل میں لے لیا تھا۔
کشتیوں پر سوار یوکرینی بحریہ کے تمام 24 اہلکار روسی حکام کی تحویل میں ہیں جن کا کہنا ہے کہ عملے کو روسی حدود کی خلاف ورزی پر حراست میں لیا گیا ہے۔
SEE ALSO: روس نے یوکرین کے تین بحری جہاز پکڑ لئےتاہم جمعرات کو اپنے انٹرویو میں یوکرین کے صدر نے روسی موقف کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ صدر ولادی میر پوٹن بحیرۂ ازوو پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ان کا ملک جارحیت پر مبنی روس کی یہ پالیسی قبول نہیں کرسکتا کیوں کہ ان کے بقول اس نے پہلے کرائمیا پر قبضہ کیا، پھر مشرقی یوکرائن ہتھیا لیا اور اب وہ بحیرۂ ازوو لینا چاہتا ہے۔
بحیرۂ ازوو کے شمال اور مغرب میں یوکرین جب کہ مشرق میں روس واقع ہے اور یہ بحیرہ ایک پتلی سی بحری گزرگاہ 'خلیجِ کرچ' کے ذریعے بحیرۂ اسود سے منسلک ہے۔
روس اور یوکرین نے 2003ء میں طے پانے والے ایک معاہدے کے تحت اس سمندر اور خلیجِ کرچ کو دونوں ملکوں کی مشترکہ ملکیت قرار دیا تھا۔
SEE ALSO: روس کے ساتھ کشیدگی جاری، یوکرائن میں مارشل لا نافذاپنے انٹرویو میں یوکرین کے صدر کا مزید کہنا تھا کہ نیٹو ممالک خصوصاً جرمنی کو بھی سوچنا ہوگا کہ اگر پوٹن کو ابھی نہ روکا گیا تو ان کا اگلا قدم کچھ بھی ہوسکتا ہے۔
انہوں نے الزام عائد کیا کہ صدر پوٹن قدیم روسی شہنشائیت بحال کرنا چاہتے ہیں جو یوکرائن کے بغیر ادھوری رہے گی اور اسی لیے وہ یوکرین کو اپنی کالونی سمجھتے ہیں۔
روس کی جانب سے یوکرینی بحریہ کی کشتیوں کو تحویل میں لینے اور عملے کی گرفتاری کے بعد یوکرائن کی حکومت نے ملک کے سرحدی علاقوں میں 30 روز کے لیے مارشل لا نافذ کردیا ہے۔
صدر پوروشینکو نے الزام عائد کیا ہے کہ روس نے ان کے ملک کے خلاف جارحیت کے نئے مرحلے کا آغاز کردیا ہے اور انہیں خدشہ ہے کہ روس زمینی یا بحری راستے سے ان کے ملک پر حملہ آور ہوسکتا ہے۔
SEE ALSO: کشیدگی کے ذمہ دار خود یوکرین کے صدر پوروشینکو ہیں، پوٹنروس نے 2014ء میں یوکرین کے علاقے کرائمیا پر قبضہ کرنے کے بعد علاقے کو روس میں ضم کرلیا تھا جس کے بعد سے دونوں ممالک کے تعلقات انتہائی کشیدہ ہیں۔
گزشتہ روز روسی حکومت نے اعلان کیا تھا کہ وہ کرائمیا میں اپنی فوجی موجودگی میں اضافہ کرے گی جب کہ وہاں ایس 400 میزائل دفاعی نظام بھی نصب کیا جائے گا۔
حالیہ کشیدگی کے بعد امریکہ اور نیٹو کے علاوہ کئی یورپی ممالک بھی روس سے کشیدگی ختم کرنے کا مطالبہ کرچکے ہیں جب کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے متنبہ کیا ہے کہ وہ صورتِ حال کے پیشِ نظر روسی ہم منصب پوٹن سے رواں ہفتے جی20 سربراہ اجلاس کے موقع پر طے شدہ ملاقات بھی منسوخ کرسکتے ہیں۔