روس کے ساتھ تناؤ کے معاملے پر بات چیت کے لیے، جرمن چانسلر آنگلہ مرخیل نے یوکرین کے صدر پیٹرو پوروشنکو سے کئیف میں ملاقات کی، جس سے ایک ہی روز قبل انسانی ہمدردی کی آڑ میں روسی قافلہ ملک کے اندر داخل ہوا۔
ہفتے کو کئیف آمد پر، مس مرخیل نے کہا کہ وہ ایک ایسے وقت دورہ کر رہی ہیں جب یوکرین کی علاقائی یکجہتی ’مشکل لیکن فیصلہ کُن‘ مرحلے سے گزر رہی ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ امن کے لیے راہ تلاش کی جانی چاہیئے۔ اُنھوں نے خبردار کیا کہ اگر تشدد کی کارروائیاں جاری رہتی ہیں تو روس کو مزید معاشی پابندیوں کا سامنا ہوگا۔
مسٹر پوروشنکو نے جرمنی کی حمات کے سلسلے میں اُن کے دورے پر شکریہ ادا کیا۔ اُنھوں نے کہا کہ یوکرین اس بات کا خواہاں ہے کہ بحران کا خاتمہ ہو، تاہم علاقائی اقتدارِ اعلیٰ اِس کی بھینٹ نہیں چڑھنے چاہیئے۔
ہفتے کو ہونے والی اِس بات چیت سے قبل مسٹر پوروشنکو اور روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے منگل کو بیلاروس کے شہر مِنسک میں ایک اہم ملاقات کی۔
اِس سےقبل، تقریباً 200 ٹرکوں پر مشتمل روسی امدادی قافلہ روس واپس پہنچا، جس سے قبل، یوکرین کے حکام سے اجازت حاصل کیے بغیر، یہ قافلہ یوکرین داخل ہوا، اور لہانسک کے شہر میں رُکا۔ روس نے کہا ہے کہ اِن ٹرکوں میں خوراک، پانی، جنریٹرز اور ’سلیپنگ بیگ‘ شامل تھے۔
یہ واضح نہیں تھا آیا یوکرین میں ایک رات رُکنے کے دوران، اِن ٹرکوں سے کتنا سامان اتارا گیا۔
روس کی طرف سے یوکرین کی سرحد پر کئی دِنوں کے انتظار، اور قافلے کے یوکرین میں داخل ہونے کے معاملے پر یوکرین، امریکہ، نیٹو اور یورپی یونین کی طرف سے نکتہ چینی سامنے آئی۔
جمعے کے روز وائٹ ہاؤس کے اہل کاروں نے اِس اقدام کو یوکرین کے اقتدارِ اعلیٰ کی کھلم کھلا خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے، روس سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ قافلے کو ہٹادے یا پھر نتائج بھگتنے کے لیے تیار رہے۔
اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل، بان کی مون نے بھی قافلے کے داخلے پر تشویش کا اظہار کیا ہے، یہ کہتے ہوئے کہ کسی یکطرفہ اقدام کے باعث مشرقی یوکرین کی پہلے ہی سے خطرناک صورتِ حال مزید بگڑ سکتی ہے۔
قافلے کی واپسی کے بارے میں بتاتے ہوئے، روسی وزارتِ خارجہ نے ابتدائی رسد کی آمد میں بے انتہا تاخیر کے عنصر کا ذکر کیا اور کہا کہ یہ تاخیر ’ناقابلِ برداشت‘ ہوتی جا رہی تھی۔
اُس نے اِس امداد کو ’خواتین، بچوں اور عمر رسیدہ لوگوں کے لیے اشد ضروری‘ قرار دیا۔