وائٹ ہاؤس کے بیان میں اس اقدام کو یوگنڈا کی ہم جنس برادری کے لیے توہین اور خطرناک قرار دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اس سے افریقی ریاست کے انسانی حقوق سے متعلق ریکارڈ پر برے اثرات مرتب ہوں گے۔
امریکہ نے یوگنڈا پر زور دیا ہے کہ افریقی ریاست ہم جنس پرست مخالف قانون کو کالعدم قرار دے جس کے تحت عمر قید تک کی سزا دی جا سکتی ہے۔
وائٹ ہاؤس سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ صدر یووری موسیوینی اس قانون پر دستخط کرکے ’’یوگنڈا کو ایک قدم پیچھے‘‘ لے کر چلے گئے ہیں۔
بیان میں اس اقدام کو یوگنڈا کی ہم جنس پرست برادری کے لیے توہین اور خطرناک قرار دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اس سے افریقی ریاست کے انسانی حقوق سے متعلق ریکارڈ پر برے اثرات مرتب ہوں گے۔
امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان جین ساکی کا کہنا تھا کہ اس نئے قانون کے تناظر میں امریکہ یوگنڈا کے ساتھ تعلقات پر نظرثانی کررہا ہے۔
’’اب قانون بن چکا ہے تو ہم داخلی طور پر یوگنڈا کی حکومت کے ساتھ تعلقات کا جائزہ لے رہے ہیں تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ ہمارے تعلق میں غیر امتیازی پالیسی، اصولوں اور ہماری اقدار برقرار رہیں۔‘‘
نئے قانون میں ہم جنس افراد میں جنسی تعلق پر سخت سزائیں اور ہم جنس پرستی کی ’’ترویج‘‘ پر پابندی عائد کی گئی ہے۔
صدر موسیوینی نے اس قانونی مسودے کا دفاع کرتے ہوئے کہا تھا کہ ایسے گروہ ملک کے نوجوانوں کو ہم جنس بنانے کی کوشش کررہے ہیں۔
’’کوئی ایسی تحقیق نہیں جو کہ کہتی ہوکہ آپ قدرتی طور پر ہم جنس ہو سکتے ہو۔ کیونکہ پرورش ہی اس کی بنیادی وجہ ہے تو پھر معاشرہ اس رجحان کی حوصلہ شکنی کے لیے کچھ کر سکتا ہے۔ اسی لئے میں اس بل پر دستخط کے لیے آمادہ ہوا ہوں۔‘‘
اقوام متحدہ کے ترجمان مارٹن نیسرکی کا کہنا تھا کہ سیکرٹری جنرل بان کی مون کو اس قانون کے منفی اثرات پر ’’سنگین تشویش‘‘ ہے۔
’’وہ انسانی حقوق کے ہائی کمشنر کے خیالات کی حمایت کرتے ہیں کہ اس قانون سے انسانی حقوق کی خالف ورزی ہوتی ہے۔ یہ ایک منظم نظام کے تحت امتیازی سلوک کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق کے کارکنوں کے اہم کام کو بھی محدود کرے گا اور ہوسکتا ہے کہ اس سے تشدد کے واقعات بھی رونما ہوں۔‘‘
وائٹ ہاؤس سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ صدر یووری موسیوینی اس قانون پر دستخط کرکے ’’یوگنڈا کو ایک قدم پیچھے‘‘ لے کر چلے گئے ہیں۔
بیان میں اس اقدام کو یوگنڈا کی ہم جنس پرست برادری کے لیے توہین اور خطرناک قرار دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اس سے افریقی ریاست کے انسانی حقوق سے متعلق ریکارڈ پر برے اثرات مرتب ہوں گے۔
امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان جین ساکی کا کہنا تھا کہ اس نئے قانون کے تناظر میں امریکہ یوگنڈا کے ساتھ تعلقات پر نظرثانی کررہا ہے۔
’’اب قانون بن چکا ہے تو ہم داخلی طور پر یوگنڈا کی حکومت کے ساتھ تعلقات کا جائزہ لے رہے ہیں تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ ہمارے تعلق میں غیر امتیازی پالیسی، اصولوں اور ہماری اقدار برقرار رہیں۔‘‘
صدر موسیوینی نے اس قانونی مسودے کا دفاع کرتے ہوئے کہا تھا کہ ایسے گروہ ملک کے نوجوانوں کو ہم جنس بنانے کی کوشش کررہے ہیں۔
’’کوئی ایسی تحقیق نہیں جو کہ کہتی ہوکہ آپ قدرتی طور پر ہم جنس ہو سکتے ہو۔ کیونکہ پرورش ہی اس کی بنیادی وجہ ہے تو پھر معاشرہ اس رجحان کی حوصلہ شکنی کے لیے کچھ کر سکتا ہے۔ اسی لئے میں اس بل پر دستخط کے لیے آمادہ ہوا ہوں۔‘‘
اقوام متحدہ کے ترجمان مارٹن نیسرکی کا کہنا تھا کہ سیکرٹری جنرل بان کی مون کو اس قانون کے منفی اثرات پر ’’سنگین تشویش‘‘ ہے۔
’’وہ انسانی حقوق کے ہائی کمشنر کے خیالات کی حمایت کرتے ہیں کہ اس قانون سے انسانی حقوق کی خالف ورزی ہوتی ہے۔ یہ ایک منظم نظام کے تحت امتیازی سلوک کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق کے کارکنوں کے اہم کام کو بھی محدود کرے گا اور ہوسکتا ہے کہ اس سے تشدد کے واقعات بھی رونما ہوں۔‘‘