امارات: حکومت مخالف کارروائیوں پر سختی میں اضافہ

متحدہ عرب امارات کی عدالت عظمیٰ

متحدہ عرب امارات میں سات سرگرم اسلام پسندوں سے ان کی شہریت واپس لے لی گئی ہے اور جیل میں ڈال دیا گیا ہے۔ اس ہفتے عدالت نے ان کی یہ درخواست مسترد کردی کہ ان کے امارات کے جاری کیئے ہوئے پاسپورٹ واپس کر دیے جائیں۔ یو ں ان کا مستقبل غیر یقینی ہو گیا ہے ۔ ایسا لگتا ہے کہ اس تشویش کے پیش نظر کہ علاقے میں جو بے چینی پھیلی ہوئی ہے، وہ متحدہ عرب امارات تک نہ پہنچ جائے، حکام نے حکومت مخالف کارروائیوں پر سختی میں اضافہ کر دیا ہے ۔

یہ ساتوں افراد ریفارم اینڈ سوشل گائڈنس ایسوسی ایشن، یا الاصلاح کے رکن ہیں۔ گذشتہ دسمبر میں دہشت گردوں سے مبینہ رابطوں کی بنا پر، ان کی شہریت منسوخ کر دی گئی تھی، اور جب انھوں نے نئی قومیتیں حاصل کرنے سے انکار کر دیا، تو انہیں گرفتار کر لیا گیا۔

ان کے وکیل محمد الرکن نے کہا ہے کہ جمعرات کو عدالت کے اس اعلان سے پہلے کہ ان کی شہریت بحال کرنے کی اپیل مسترد کی جا رہی ہے، انہیں ان افراد سے ملنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ ’’ہم اس فیصلے کے خلاف اپیل کریں گے ۔ ہم نے ایک نیا مقدمہ بھی دائر کیا ہے جس میں اس صدارتی فرمان کو چیلنج کیا گیا ہے جو گذشتہ دسمبر میں منظور کیا گیا تھا ۔ ہماری دلیل یہ ہے کہ یہ فرمان غیر آئینی ہے ۔‘‘

حکومت کے مطابق، یہ افراد جنہیں عام طور سے یو اے ای سیون کہا جاتا ہے، ریاست کی سلامتی کے لیے خطرہ ہیں۔ لیکن ہیومن رائٹس واچ کے سمیر مسقطی کہتے ہیں کہ اس دعوے کے حق میں جو ثبوت پیش کیا گیا ہے وہ ناکافی ہے ۔’’اگر آپ ان افراد کے ریکارڈ پر نظر ڈالیں، تو ان کا کسی مجرمانہ سرگرمی سے کوئی تعلق ثابت نہیں ہوتا ۔ ایسا لگتا ہے کہ ان کے پکڑے جانے کی وجہ صرف یہ ہے کہ یہ الاصلاح کے رکن ہیں۔‘‘

انسانی حقوق کے حامی گروپوں کا کہنا ہے کہ آج کل متحدہ عرب امارات میں 15 سرگرم سیاسی کارکن گرفتار ہیں۔ یہ تقریباً سب الاصلاح کے ارکان ہیں جنہیں نے گذشتہ سال ایک عرضداشت پر دستخط کیے تھے جس میں ملک میں زیادہ نمائندہ حکومت کے قیام کے لیے کہا گیا تھا ۔
الاصلاح کی تنظیم انہیں اسلامی اصولوں کی پیروکار ہے جن کی پابندی مصر کی اخوان المسلمین کرتی ہے، لیکن اس کا اخوان سے کوئی باقاعدہ تعلق نہیں۔

متحدہ عرب امارات اور اس کے ہمسایہ ممالک کی نظر میں اخوان المسلمین بادشاہت کے خلاف ہے اور وہ اسے علاقے کے حکمراں خاندانوں کے لیے خطرہ سمجھتے ہیں۔ الاصلاح پر جو سختیاں کی جا رہی ہیں، ان سے امارات کے رہنے والوں کے درمیان اختلافات پیدا ہوئے ہیں۔

تا ہم ڈرہم یونیورسٹی کے کرسٹوفر ڈیوڈسن کہتے ہیں کہ جن لوگوں کو الاصلاح کے ساتھ کیے جانے والے سلوک پر اعتراض ہے، امکان یہی ہے کہ وہ خاموش رہیں گے کیوں کہ حکومت لوگوں کو بڑی فیاضانہ سہولتیں فراہم کرتی ہے ۔’’اہم بات یہ ہے کہ لوگوں کی کثیر تعداد ان لوگوں کی حمایت نہیں کر رہی ہے۔ اور ظاہر ہے کہ جب لوگوں کو مالی آسودگی حاصل ہے، تو ایسا ہی ہوگا۔ لہٰذا ، ان افراد کے لیے کوئی زیادہ ہمدردی دیکھنے میں نہیں آئے گی، سوائے اس کے کہ کچھ چہ مہ گوئیاں ہوں یا سوشل میڈیا میں کچھ گمنام تبصرے نظر آئیں۔‘‘

متحدہ عرب امارات میں حکومت کے مخالفین کے خلاف جو کارروائی کی گئی ، اس پر گذشتہ سال ساری دنیا میں لے دے ہوئی جب پانچ سرگرم کارکنوں کو مملکت کے خلاف جرائم کا مجرم قرار دیا گیا۔ بعد میں صدر نے انہیں معاف کر دیا ، لیکن ان میں سے ایک شخص کو جس کے پاس کسی ملک کی شہریت نہیں، گذشتہ مہینے دوبارہ گرفتار کر لیا گیا اور اب اس کے ملک بدر کیے جانے کا خطرہ ہے ۔

ایمرٹس سنٹر فار ہیومن رائٹس کے روری ڈونگھے کہتے ہیں کہ متحدہ عرب امارات نے سختی کرنے کا جو طریقہ اختیار کیا ہے، اس سے فائدے کے بجائے الٹا نقصان ہو سکتا ہے ۔’’متحدہ عرب امارات کو ان لوگوں کو جیل میں ڈالنے کا سلسلہ بند کرنا چاہیئے جو جمہوریت کا مطالبہ کرتے ہیں، اور ان سے بات چیت شروع کرنی چاہیئے کیوں کہ قومی اتحاد اسی طرح بر قرار رکھا جا سکتا ہے، اور مستقبل میں متحدہ عرب امارات میں استحکام اسی طرح قائم رہ سکتا ہے ۔‘‘

متحدہ عرب امارات امریکہ کا اتحادی ہے۔ یہ سات ریاستوں پر مشتمل ملک ہے اور اس کا درالحکومت ابوظہبی ہے ۔