|
علاقائی اور بین الاقوامی امن کے لیے مشترکہ کوششوں کے ساتھ خطے میں پاکستانی طالبان اور داعش خراسان جیسی دہشت گرد تنظیموں کے خلاف مل کرکام کیا جائے گا، اس عزم کا اظہار، امریکہ اور پاکستان نے یہاں واشنگٹن میں ہونے والی اپنی بات چیت میں کیا ہے۔
جمعہ کو، محکمہ خارجہ کی انسداد دہشت گردی کی رابطہ کار، سفیر الزبتھ رچرڈ اور پاکستان کے اقوام متحدہ کیلئے،ایڈیشنل سیکرٹری اور او آئی سی کے سفیر سید حیدر شاہ نے امریکہ پاکستان انسداد دہشت گردی ڈائیلاگ کی مشترکہ صدارت کی تھی۔
دہشت گرد گروپوں کے خلاف جن مشترکہ کوششوں کا اعلان کیا گیا ہےاسے یہاں کچھ تجزیہ کارکوئی اہم پیش رفت نہیں سمجھتے تاہم ان کا کہنا ہے کہ اس وقت دونوں ملکوں کو امن کے حوالے سے ایک دوسرے کی مدد کی ضرورت ہے۔
ڈاکٹر سحر خان یہاں واشنگٹن میں اسٹمسن سینٹر (Stimson Center ) میں جنوبی ایشیا کے شعبے کی سینئیر فیلو اور ڈپٹی ڈائریکٹر ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ایک ایسے وقت میں جب امریکہ کی توجہ چین کی طرف ہے، یوکرین کی طرف ہے یا اسرائیل اورغزہ کی طرف ہے، افغانستان اور انسداد دیشت گردی جیسے اقدامات اسکی ترجیحی فہرست میں نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا۔" میرے خیال میں اس وقت پاکستان امریکی پالیسی میں کوئی کلیدی پلئیر نہیں ہے۔"
SEE ALSO: کیا افغانستان امریکہ کی ترجیح نہیں رہا؟تاہم نیویارک میں مقیم ممتاز تجزیہ کار جہانگیر خٹک جو افغان پاکستان امور اور دہشت گردی پر نظر رکھتے ہیں واشنگٹن میں امریکی اور پاکستانی سفارت کاروں کی ملاقات کو چند اہم واقعات کا تسلسل سمجھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ "یہ مذاکرات اس وقت ہوئے ہیں جب پاکستان میں دہشت گردی بڑھ رہی ہے اور امریکہ مسلسل اس بارے میں تشویش کا اظہار کر رہا ہے کہ افغانستان میں طالبان کی سرپرستی میں القاعدہ جیسی تنظیمیں دوبارہ مضبوط ہو رہی ہیں۔"
جہانگیر خٹک نے کہا کہ امریکی سینٹرل کمانڈ کے کمانڈر مائیکل ایرک کوریلا نے جمعرات کو پاکستان کا دورہ کیا جہاں انہوں نے افواج پاکستان کے سربراہ جنرل عاصم منیر سے ملاقات کی تھی۔ انہوں نے کہا کہ اس کے بعد یہ خبر آنا کہ امریکہ اور پاکستان میں اینٹی ٹیرر ازم ڈائیلاگ ہوا ہے جس میں امریکہ اور پاکستان دونوں نے تعاون بڑھانے پر اتفاق کیا ہے اور یہ کہ امریکہ پاکستان کی جتنی امداد کر سکتا ہے کرے گا۔"تو ہمیں اسے اس ملاقات کے تناظر میں دیکھنا چاہئیے۔"
انہوں نے باور کروایا کہ پاکستان اور امریکہ کی فوجی قیادت میں گزشتہ کچھ عرصے سے رابطوں میں اضافہ ہوا ہے۔بقول انکے۔" پاکستان اور امریکہ کے سیاسی تعلقات میں تو مجھے کوئی خاص بہتری نظر نہیں آرہی لیکن جو تعلقات فوجی سطح پر ہیں وہ ہمیشہ سے ٹھیک ہیں۔"
SEE ALSO: عمران خان کی سیفٹی سے متعلق سینیٹر شومر کے خدشات سے آگاہ نہیں ہیں، امریکی محکمہ خارجہانہوں نے منگل کو جاری کی جانے والی ’یونائیٹڈ اسٹیٹس انسٹی ٹیوٹ آف پیس ‘کی ایک اہم رپورٹ کا ذکر کیا جس میں کہا گیا ہے کہ امریکہ نے افغانستان میں طاقت کا جو خلا چھوڑا ہے، وہ ایسے اسلام پسند دہشت گردوں کے دوبارہ سر اٹھانے کو تقویت دے رہا ہے، جو امریکہ اور بیرون ملک اس کے مفادات کو نشانہ بنانے کی خواہش رکھتے ہیں۔ اس رپورٹ میں امریکہ سے کہا گیا ہے کہ وہ دوبارہ سے افغانستان میں حملے شرو ع کرے۔
خٹک نے کہا کہ یہ رپورٹ امریکی سوچ کی عکاسی کرتی ہےکہ طالبان کی قیادت کے دوران القاعدہ مستحکم ہورہی ہے اور داعش خراسان اتنی مضبوط ہو چکی ہے کہ وہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے لیے بھی ایک خطرہ بن چکی ہے۔
سحر نے اس سوال کے جواب میں کہ آیا واشنگٹن میں امریکی اور پاکستانی سفارت کاروں کہ ملاقات اور اس سے صرف ایک روز قبل نو مئی کو امریکی سینٹرل کمانڈ کے کمانڈر مائیکل ایرک کوریلا کی پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل عاصم منیر سے ملاقات کے درمیان کوئی تعلق ہے، کہا کہ اس بارے میں مختلف نکتہ نظر موجود ہیں۔
بقول انکے" یہ بھی ہے کہ جو لوگ اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ میں یا وائٹ ہاؤس میں یا دیگر محکموں میں جنوبی ایشیا پر کام کرتے ہیں وہ داعش خراسان یا تحریک طالبان پاکستان کا احتیاط سے جائزہ لے رہے ہیں۔"
سحر خان نے کہا"وہ سمجھتے ہیں کہ انسداد دیشت گردی کو ایک ترجیحی آ ئٹم رہنا چاہئیے ۔یہ عہدہ داراس بات پر فوکس کر رہے ہیں کہ جو محدود وسائل موجود ہیں انہیں کیسے بہترین طریقے سے استعمال کیا جائے تاکہ اسلامک اسٹیٹ۔۔خراسان اور تحریک طالبان پاکستان کا مقابلہ کیا جاسکے۔"
SEE ALSO: افغانستان میں دہشت گردوں کے خلاف مبینہ کارروائی؛ طالبان نے پاکستانی وفد کا دورہ منسوخ کر دیاانسداد دہشت گردی ڈائیلاگ کے بارے میں مشترکہ بیان
واشنگٹن میں انسداد دہشت گردی ڈائیلاگ میں تحریک طالبان پاکستان (TTP) اور داعش-خراسان سمیت علاقائی اور عالمی سلامتی کو درپیش اہم ترین چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے امریکہ اور پاکستان کے درمیان تعاون پر زوردیا گیاہے۔
محکمہ خارجہ کی طرف سے جاری کیے جانے والے مشترکہ بیان میں کہا گیا ہے کہ کہ انسداد دہشت گردی ڈائیلاگ میں تحریک طالبان پاکستان اور آئی ایس- خراسان سمیت علاقائی اور عالمی سلامتی کو درپیش اہم ترین چیلنجوں سے نمٹنے میں امریکہ اور پاکستان کے درمیان تعاون پر زور دیا گیا۔
بیان کے مطابق باہمی دلچسپی کے شعبوں پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے خطے میں انسداد دہشت گردی کے منظر نامے پر بات چیت ہوئی ہے۔
امریکی اور پاکستانی سینئر عہدہ داروں نے نے انسداد دہشت گردی میں تعاون اور اہلیت کو وسیع کرنے کی اہمیت پر زور دیا، جس میں تکنیکی مہارتوں اور بہترین طریقہ کار کے تبادلے، سرحدی سیکیوریٹی کے بنیادی ڈھانچے اور ٹریننگ کی فراہمی شامل ہے۔ اس میں اقوام متحدہ اور انسداد دہشت گردی کے دیگر عالمی فورمز میں کثیرالجہتی انگیجمینٹس کو تقویت دینا شامل ہے۔
کیا ٹی ٹی پی اور القاعدہ افغان طالبان کے قریب ہیں؟
سحر خان کہتی ہیں کہ "اگرچہ یہ ایک پیچیدہ مسئلہ ہے لیکن وہ نہیں سمجھتیں کہ ٹی ٹی پی اور القاعدہ کو طالبان اپنے لیے کوئی خطرہ سمجھتے ہیں۔ وہ طالبان کے کوئی بہت اچھے دوست بھی نہیں ہیں لیکن وہ طالبان کو چیلنج بھی نہیں کرتے۔اسی طرح ٹی ٹی پی اور القاعدہ بھی ایک دوسرے سے ملے ہوئے نہیں ہیں۔ ان میں کامن بات یہ ہے کہ افغان طالبان کے ساتھ ان کے اچھے تعلقات ہیں۔"
تو ایک ایسے وقت میں محکمہ خارجہ اور محکمہ دفاع کے عہدہ داروں کے درمیان واشنگٹن اور اسلام آباد میں ملاقاتوں میں جس تعاون کی بات ہورہی ہے وہ تعاون کیا ہوگاِ؟ امریکہ پاکستان سے کیا چاہے گا اور پاکستان کی توقعات کیا ہونگی؟
SEE ALSO: پاکستان: تین ماہ کے دوران فوجی آپریشنز اور حملوں میں 400 سے زائد ہلاکتیںسحر خان کا کہنا ہے کہ واشنگٹن سپورٹ کرے گا پاکستان پولیس کو، فرسٹ لائین رسپانڈرز کو،اور کو شش کرے گا انسداد دہشت گردی کے لیےسپورٹ دینے کی۔ کیونکہ پاکستان میں ان علاقوں میں زیادہ تر پولیس ہی فرنٹ لائین پر ہوتی ہے۔
سحر نے مزیدکہا"میں سمجھتی ہوں کنکشن تو رہے گا اور اس طرح کی سپورٹ رہے گی لیکن جس طرح کی ہم اس وقت دیکھتے تھے جب امریکہ افغانستان میں تھا، تو اس طرح کی سپورٹ ہم نہیں دیکھیں گے۔"
جہانگیر خٹک کا کہنا ہے کہ " امریکہ پاکستان سے عمومأ دو ہی چیزیں چاہتا ہے۔ انٹیلیجنس معلومات اور لاجسٹیکل سپورٹ۔ " جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے تو پاکستان اکنامک سپورٹ چاہتا ہے، ملٹری سپورٹ بھی اور پولیٹیکل سپورٹ بھی۔ "
پاک افغان تعلقات
یہ مذاکرات اس وقت ہوئے ہیں جب پاکستان میں دہشت گردی بڑھ رہی ہے اور اس بار سیکیورٹی اہلکاروں پر دہشت گرد حملے ہورہے ہیں۔
دونوں ملکوں کے درمیان تازہ کشیدگی میں، افغانستان کی طالبان حکومت نے پاکستان کی جانب سے سرحد پار دہشت گردوں کے مبینہ محفوظ ٹھکانوں پر حملے کو جواز بناتے ہوئے احتجاجاً پاکستانی وفد کا دورۂ قندھار منسوخ کر دیا ہے۔
ذرائع کے مطابق کالعدم تنظیم، تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے بڑھتے ہوئے حملوں کے پیشِ نظر پاکستان کے ایک اعلیٰ سطح کے فوجی وفد کو اتوار کو قندھار کا دورہ کرنا تھا جسے طالبان حکومت نے آخری لمحات میں منسوخ کر دیا۔
اس بارے میں تاحال پاکستان کی فوج کا کوئی بیان سامنے نہیں آیا ہے۔ وائس آف امریکہ کی جانب سے پاکستانی دفتر خارجہ کو بھیجے گئے تحریری سوال کا بھی کوئی جواب موصول نہیں ہوا ہے۔
طالبان حکومت نے بھی سرکاری سطح پر اس سفارتی وفد کے کابل آنے کے حوالے سے کوئی تصدیق یا تردید جاری نہیں کی ہے۔
تاہم ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستانی وفد کا دورہ گزشتہ ہفتے پاکستان سے افغانستان میں سرحد پار مبینہ حملے کے بعد منسوخ ہوا ہے جس میں ٹی ٹی پی سے تعلق رکھنے والے جنجگوؤں کی ہلاکت کی اطلاعات بھی ہیں۔
پاکستان کا سرکاری وفد ایک ایسے وقت میں افغانستان کا دورہ کر رہا تھا جب پاکستان کی اعلیٰ فوجی قیادت نے ملک میں ہونے والے حالیہ حملوں کو بھی افغانستان سے جوڑا تھا۔
گزشتہ ہفتے پاکستان کی فوج کے ترجمان نے اپنی پریس کانفرنس میں صحافیوں کو بتایا تھا کہ پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی کی حالیہ کارروائیوں کو افغان سر زمین کی سہولت کاری حاصل ہے۔
ااس سے پہلے افغانستان کے طالبان حکمران اس ظرح کے الزامات کی سختی سے تردید کرتے ہیں اور یہ کہہ چکے ہیں کہ پاکستان اپنی حفاظت کی ذمے داری خود اٹھائے اوریہ کہ دہشت گردوں کو افغان سر زمین استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی۔