پاکستان کے صوبے بلوچستان کے ضلع کیچ سے دو طلبہ کی مبینہ جبری گمشدگی کے معاملے پر انسانی حقوق کی تنظٰیموں نے تشویش کا اظہار کیا ہے۔
مبینہ طور پر لاپتا ہونے والے طلبہ میں پنجاب یونیورسٹی میں زیرِ تعلیم رہنے والے سالم بلوچ اور اکرم بلوچ شامل ہیں۔
خاندانی ذرائع کے مطابق پیر اور منگل کی درمیانی شب سادہ کپڑوں میں ملبوس نامعلوم مسلح افراد نے تربت کے علاقے آبسر میں سالم بلوچ کے گھر پر چھاپہ مارا اور سالم بلوچ کو ساتھ لے گئے۔
سالم بلوچ کے کزن بیبرگ امداد نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ چار جولائی کو پانچ گاڑیوں پر کچھ لوگ آئے اور دیواریں پھلانگ کر گھر میں داخل ہوئے اور سالم بلوچ کو زبردستی اپنے ساتھ لے گئے۔
اُنہوں نے کہا کہ اس دوران گھر والوں نے مزاحمت کی کوشش کی مگر اہل کاروں نے کسی کی نہ سنی اور یہ تسلی دے کر گئے کہ پوچھ گچھ کے بعد چھوڑ دیا جائے گا۔ لیکن تاحال سالم بلوچ کی کوئی خبر نہیں ہے کہ وہ کہاں ہیں۔
بیبرگ امداد کو بھی گزشتہ برس سادہ لباس میں ملبوس کچھ اہل کار پنجاب یونیورسٹی ہاسٹل سے اپنے ساتھ لے گئے تھے۔ بعدازاں اُنہیں رہا کر دیا گیا تھا۔
بیبرگ امداد کا کہنا تھا کہ سالم بلوچ پنجاب یونیورسٹی میں ایم اے تاریخ کے طالب علم رہے ہیں تاہم وہ تعلیم اُدھوری چھوڑ کر واپس آ گئے تھے۔
اُنہوں نے بتایا کہ ان واقعات سے نہ صرف اُن کی پڑھائی متاثر ہوئی بلکہ سالم کو بھی اپنی پڑھائی چھوڑنی پڑی۔ اس کے بعد سے سالم گھر کی ذمے داری سنبھال رہے تھے اور پارٹ ٹائم کام کرتے تھے ۔
بیبرگ بلوچ نے کہا کہ چوں کہ سالم بلوچ ایک پر امن شہری ہے اس لیے ہمارا مطالبہ ہے کہ اسے رہا کیا جائے اور اگر اس نے کوئی گناہ کیا ہے تو اسے عدالت میں پیش کیا جائے ۔
Your browser doesn’t support HTML5
وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے اعداد و شمار کے مطابق بلوچستان سے اب تک لاپتا ہونے والے افراد کی کل تعداد سات ہزار کے قریب ہے جب کہ 2019 سے اب تک لگ بھگ 640 افراد بازیاب ہوچکے ہیں۔
انسانی حقوق کی کارکن ماہ رنگ بلوچ نے ٹوئٹر پر ایک اپنے ایک پیغام میں کہا کہ سالم بلوچ اوراکرم سمیت حالیہ دنوں بلوچستان بھر میں ہونےوالی جبری گمشدگیوں کے واقعات انتہائی تشویش ناک ہیں۔
ماہ رنگ نے کہا کہ "لاپتا طلبہ کی بازیابی کوفوری طور پر یقینی بناتے ہوئے جبری گمشدگی کے واقعات کو روکا جائے جس سے بلوچستان میں غیر یقینی حالات پیدا ہو چکے ہیں۔"
خیال رہے کہ پاکستان کے ریاستی ادارے اور سیکیورٹی ایجنسیاں بلوچستان میں شہریوں کو جبری طور پر لاپتا کرنے کے الزامات کی تردید کرتی رہی ہیں۔ سیکیورٹی اداروں کا یہ مؤقف رہا ہے کہ لاپتا افراد کی فہرست میں جن افراد کو شمار کیا جاتا ہے ان میں سے بیشتر بیرونِ ممالک جا چکے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ماہ رنگ نے کہا کہ طلبہ کسی بھی معاشرے میں تبدیلی کا ضامن ہوتے ہیں اسی طرح بلوچ طلبہ صوبے میں جاری انسانی حقوق کی پامالیوں، جبری گمشدگیوں،صحت اور تعلیم کے بحران کے خلاف جد وجہد کا حصہ بنے رہے ہیں۔
ان کے بقول یہی وجہ ہے کہ سب سے زیادہ بلوچ طلبہ کو جبری گمشدگیوں کا شکار بنایا جا رہا ہے ۔
ادھر پاکستان میں کمیشن برائے انسانی حقوق مکران ریجنل آفس تربت کے ترجمان نے جاری کردہ پریس ریلیز میں کہا ہے کہ سالم بلوچ کی ماورائے آئین و عدالت اغوا اور جبری گمشدگی ایک غیر آئینی اور غیر قانونی عمل ہے۔
ایچ آر سی پی بلوچستان چیپٹر کے چیئرمین حبیب طاہر ایڈووکیٹ نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ سالم بلوچ کو مکران سے لاپتا کیا گیا ہے ان کا تعلق ایچ آر سی پی تربت سے بھی رہا ہے۔
اس معاملے پر بلوچستان حکومت کا کہنا ہے کہ اس کی کوششوں سے اب تک 400 سے زائد لاپتا افراد بازیاب ہو کر اپنے گھروں کو واپس لوٹ چکے ہیں جب کہ وہ دیگر افراد کی بازیابی کے لیے بھی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہے۔