ٹی وی ڈرامے سنیما میں کیوں دکھائے جا رہے ہیں؟

poster

پچھلے مہینے پاکستان میں مقبولیت کے ریکارڈ توڑنے والے ڈرامہ سیریل "میرے پاس تم ہو" کی آخری قسط ملک کے سنیما گھروں میں ریلیز کی گئی۔ ڈرامہ سیریل کی آخری قسط نے بعض اندازوں کے مطابق باکس آفس پر دو کروڑ سے زائد کا بزنس کیا۔

اسی ڈرامہ سیریل کی یوٹیوب پر موجود اقساط کو 40 کروڑ سے زائد مرتبہ دیکھا جا چکا ہے۔

اب ہم ٹی وی اور آئی ایس پی آر کی مشترکہ پروڈکشن، ڈرامہ سیریل عہدِ وفا کے بارے میں بھی اعلان کیا گیا ہے کہ اس کی آخری اقساط کو بھی سنیما میں ریلیز کیا جائے گا۔

ایسے میں خیال ابھرتا ہے کہ کیا پاکستان کا ڈرامہ اتنا مضبوط ہو گیا ہے کہ اس کو دیکھنے کے لیے لوگ سنیما کی ٹکٹ لینے کے لیے بھی تیار ہیں۔

عشق نچایا، خواب تعبیر اور دو تولہ پیار جیسے ڈرامے لکھنے والے ظفر عمران کا کہنا تھا کہ "میرے پاس تم ہو کا تجربہ پہلی دفعہ کیا گیا تھا۔ وہ ایک سپر ڈوپر ہٹ تھا۔ اب باقی لوگ بھی اس کی نقل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔"

ظفر عمران اس بات سے متفق نظر نہیں آئے کہ پاکستان کی ڈرامہ انڈسٹری مضبوط ہے۔ بلکہ ان کا کہنا تھا کہ اس وقت پاکستان کی ڈرامہ انڈسٹری پر برا وقت چل رہا ہے اور بہت سے پروڈکشن ہاؤسز نے کام کم کر دیا ہے۔ "جہان پروڈکشن ہاؤس دس، دس ڈرامے بنا رہے تھے وہ اب دو یا تین پر آ گئے ہیں۔"

چینل پروڈکشن ہاؤسز کے پیسے روک رہے ہیں اور وہ فن کاروں اور تیکنیکی عملے کے۔ ان کا کہنا تھا کہ "نیوز چینلز کی طرح یہاں بھی ڈاؤن سائزنگ ہو رہی ہے۔"

ظفر عمران کے بقول "میرے پاس تم ہو پاکستان کی تاریخ میں سب سے زیادہ ریٹنگ لینے والا ڈرامہ تھا۔ عہدِ وفا کے پیچھے آئی ایس پی آر ہے۔ اس کے سنیما میں لگنے کے پیچھے اور وجوہات ہیں۔"

ان کا کہنا تھا کہ جو ڈرامے انڈسٹری میں مقابلے کی فضا کو فروغ نہیں دیتے ان سے انڈسٹری کو فائدے کی بجائے نقصان ہوتا ہے۔

SEE ALSO: کاش 'میرے پاس تم ہو' کی کہانی کچھ مختلف ہوتی: عدنان صدیقی

فلم پروڈیوسر حسن ضیا الامین کا کہنا تھا کہ اس وقت پاکستان میں سنیما انڈسٹری مشکل میں ہے۔ اُن کے بقول "میرے پاس تم ہو کو جب لگایا گیا تو لوگ دیکھنے گئے کیوں کہ سنیما میں کچھ نہیں تھا۔ اس نے دو دن کاروبار کیا۔"

ان کا کہنا تھا کہ ٹی وی اور فلم کے میڈیم میں فرق ہوتا ہے۔

"ہمیں گھر میں مفت ڈرامہ ملتا ہے۔ تو ایسے میں سنیما جا کر کون ڈرامہ دیکھے گا؟"

انہوں نے کہا کہ کچھ نہ ہونے کی وجہ سے ڈرامہ سنیما میں آ رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ "اگر یہی "میرے پاس تم ہو" کی آخری قسط کے وقت کچھ پاکستانی یا بھارتی فلمیں سنیما گھروں میں لگی ہوتیں تو میرا نہیں خیال کہ ایک آدھ سکرین کے علاوہ زیادہ چلایا جاتا۔"

حسن ضیا الامین کا کہنا تھا کہ بارڈر پار کی فلمیں سنیما کو فیڈ کر رہی تھیں۔

"ہماری اپنی فلمیں تو بہت کم تھیں۔ لوگ تجربات کر رہے تھے۔ اچھے فلم ساز تو ہمارے پاس بہت کم ہیں۔"

انہوں نے کہا ان حالات میں جہاں چند سال پہلے پاکستانی فلموں کی تعداد 40 سے 50 تک پہنچ گئی تھی وہ 2019 میں محض 23 تک رہ گئی ہے۔ "ان میں سے صرف چار نے اچھا بزنس کیا اور دو نے منافع کمایا۔"

انہوں نے کہا کہ لاہور اور کراچی میں سنیما بند ہو گئے ہیں۔ کچھ نے ہفتے میں چار چار دن سکرینز بند رکھنی شروع کر دی ہیں۔ اور کچھ تو پرانی فلمیں ہی دوبارہ لگا رہے ہیں۔

کراچی کے سب سے بڑے سنیما کامپلیکس، نیوپلیکس سنیما کے دائریکٹر میڈیا اینڈ پروگرامنگ کامران یار خان نے حسن ضیا الامین کی بات سے اتفاق کیا ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ ان کی کراچی میں 17 سکرینز ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ اس میں سے ہفتے کے اختتام پر بھی آٹھ یا نو سکرینز بند رکھنی پڑتی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ سنیما انڈسٹری نے پچھلے چند برسوں میں بہت ترقی کی ہے۔ جہاں 2013 میں 27 سکرینوں سے آج 152 ہوگئی ہیں۔

سنیما انڈسٹری کے مسائل پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس وقت زیادہ تر پاکستانی پروڈیوسر عیدین اور چھٹیوں کے دنوں کو ٹارگٹ کر رہے ہیں۔ "عید پر تو ہمارا سنیما اچھا چلتا ہے مگر باقی دنوں میں جو فلمیں آتی ہیں وہ اتنی کمزور ہوتی ہیں کہ ان کے آنے اور جانے کا پتا ہی نہیں چلتا۔"

اس سوال کے جواب پر کہ کیا سنیما مالکان کی حکومت سے بھارتی فلموں پر عائد پابندی ختم کرنے کی کوئی بات چل رہی ہے تو انہوں نے معاملے کی حساسیت کی وجہ سے اس پر تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا۔