ترکی: کرد رہنما کی جنگ بندی کی پیشکش کا متحاط خیر مقدم

(فائل فوٹو)

کردش باغی لیڈر عبداللہ اوجلان نے اپنے اعلان کو جنگ بندی قرار دیا اور کہا کہ ترکی سے ان کی فورسز کی واپسی تاریخی واقعہ ہے۔
ترکی کے وزیراعظم نے کردستان ورکرز پارٹی یا پی کے کے کے لیڈر عبداللہ اوجلان کی طرف سے جنگ بندی کے اعلان کا محتاط انداز میں خیر مقدم کیا ہے۔

کردش باغی لیڈر عبداللہ اوجلان نے اپنے اعلان کو جنگ بندی قرار دیا اور کہا کہ ترکی سے ان کی فورسز کی واپسی تاریخی واقعہ ہے۔ لیکن ترکی کے وزیرِ اعظم رجب طیب اردوان کا رد عمل محتاط تھا۔

انھوں نے کہا کہ ‘‘میں اس اعلان، اس دعوت نامے کو مثبت پیش رفت سمجھتا ہوں۔ لیکن اصل چیز یہ ہے کہ اس فیصلے پر عمل کیا جائے۔ ہم یہ چاہیں گے کہ اوجلان نے جو کچھ کہا ہے، اسے کم سے کم وقت میں حقیقت کی شکل دیں۔’’


ترکی کے وزیرِ اعظم رجب طیب اردوان



ترکی کی حکومت نے یہ اشارہ دیا ہے کہ ترکی سے پی کے کے کے تقریباً 3,000 جنگجوؤں کی واپسی کا کام اس سال کے آخر تک مکمل کیا جا سکتا ہے۔ وزیرِ اعظم اردوان نے یہ یقین دہانی بھی کی کہ ترکی سے نکلنے والے باغیوں کو بحفاظت واپس جانے کی اجازت دی جائے گی۔

تاہم عبداللہ اوجلان نے واپسی کا کوئی ٹائم ٹیبل نہیں دیا۔ شمالی عراق میں پی کے کے کے کمانڈر نورت کارالیان نے مبینہ طور پر جنگ بندی کا حکم تو دیا ہے، لیکن ترکی سے اپنی فورسز کی واپسی کے سلسلے میں کچھ نہیں کہا ہے۔

استنبول میں قائم ریسرچ انسٹی ٹیوٹ ایڈم کے سربراہ سنیان الجان کا خیال ہے کہ پی کے کے اس انتظار میں ہے کہ حکومت کچھ رعایتیں دے۔

‘‘میرے خیال میں پی کے کے چاہتی ہے کہ پارلیمینٹ اس عمل کو تسلیم کرے ۔ اگر ترکی کی پارلیمینٹ ان سے یہ وعدہ کر لیتی ہے، تو یہ اس بات کی ضمانت ہوگی کہ اس بات چیت کی قانونی حیثیت ہے۔ اس طرح انہیں عوامی سطح پر یا اپنے حلقۂ انتخاب میں لوگوں کو قائل کرنے میں بہت آسانی ہوگی کہ انہیں ان کا جائز مقام مل گیا ہے، اور انہیں شکست خوردہ فوج نہیں سمجھا جاتا۔’’

اب تک ترک مملکت اور ‘پی کے کے’ کے درمیان اس تنازعے کو طے کرنے کی کوششیں جو ایک عشرے سے جاری ہے، عبداللہ اوجلان اور ترکی کی انٹیلی جنس ایجنسی کے سربراہ حکان فیدان کے درمیان مذاکرات تک محدود رہی ہیں۔

مسٹر اردوان ان دونوں کے درمیان بات چیت کو مذاکرات کا نام دینے سے انکار کرتے رہے ہیں۔

گلتان کسانک نے جو کردوں کی حامی پیس اینڈ ڈیموکریٹک پارٹی کی لیڈر ہیں اس مہینے کے شروع میں کہا کہ حکومت کو چاہیئے کہ وہ اس عمل کو جائز قانونی حیثیت دے اور اس میں پارلیمینٹ کو شریک کرے۔

‘‘ہم سمجھتے ہیں کہ امن مذاکرات پر کام کرنے کے لیے پارلیمینٹ کے کمیشن بنائے جانے چاہئیں، اور ہم حکومت سے اسی اقدام کی توقع رکھتے ہیں۔ مملکت اور کردش عوام کے مطالبات کے درمیان خلیج کو پاٹنے کے لیے ایسا کرنا انتہائی ضروری ہے۔’’

تجزیہ کار الجان کہتے ہیں کہ اس قسم کے اقدام سے وزیرِ اعظم اور امن کے عمل کے لیے مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔

‘‘ہم سب کو یہ بات یاد رکھنی چاہیئے کہ بہت سے ترک اب بھی عبداللہ اوجلان کو 35,000 لوگوں کی موت کا ذمے دار سمجھتے ہیں۔ اس لیے حکومت کی طرف سے ایسا اقدام جس کا مقصد عبداللہ اوجلان کے ساتھ بات چیت کو قانونی حیثیت دینا ہو، ترک معاشرے میں شدید رد عمل پیدا کر سکتا ہے۔ اسی وجہ سے حکومت اس معاملے میں بہت محتاط ہے۔’’

بہار کی آمد کے ساتھ ترکی کے جنوب مشرقی علاقے میں جہاں کردوں کی اکثریت ہے، پی کے کے کی پہاڑی پناہ گاہوں میں برف پگھلنے لگی ہے۔ مبصرین نے پیش گوئی کی ہے کہ باغیوں پر ان علاقوں سے نکل جانے کے لیے دباؤ بڑھ جائے گا اور اس کے ساتھ ہی، کردوں کی ان توقعات میں بھی اضافہ ہو گا کہ حکومت انہیں کچھ رعایتیں دے گی۔