شام کے کردوں کی امریکی مدد پر ترکی کی تشویش

شام کی کرد ملیشیا وائی پی جی کے جنگجو رقہ میں داعش کے خلاف ایک کارروائی کے دوران۔ جولائی 2017

داعش کے خلاف وائی پی جی کی کامیابیوں سے متاثر ہو کر واشنگٹن انہیں مئی سے بکتر بند گاڑیاں اور چھوٹے ہتھیار فراہم کر رہا ہے۔

امریکی وزیر دفاع جم میٹس نے بدھ کے روز انقرہ میں سینیئر ترک عہدے داروں سے ملاقات کی۔ اس ملاقات کا مقصد علاقائی استحکام اور سیکیورٹی سے متعلق مسائل اور واشنگٹن کی جانب سے شام کی کرد ملیشیا کو ہتھیار فراہمی پر ترکی کے تحفظات دور کرنا تھا۔

ترکی شام کی کرد ملیشیا کو ایک دہشت گرد گروپ سمجھتا ہے۔

اپنے ایک روزہ دورے میں وزیر دفاع میٹس نے ترک صدر رجب طیب اردوان اور وزیر دفاع نورتن کینکلی سے بھی ملاقات کی۔

واشنگٹن کرد گروپ وائی پی جی کی فوجی امداد میں اضافہ کر رہا ہے ۔ یہ وہ گروپ ہے جو شام کے شہر رقہ کو داعش کے قبضے سے چھڑانے کے لیے لڑ رہا ہے۔ داعش نے رقہ کو اپنا دارالخلافہ بنایا ہوا ہے۔

انقرہ وائی پی جی پر یہ الزام لگاتا ہے کہ وہ گرد باغی گروپ پی کے کے، کی ایک شاخ ہے ۔ پی کے کے کئی عشروں سے ترکی کے خلاف شورش برپا کیے ہوئے ہے۔ امریکہ اور ترکی دونوں نے پی کے کے کو ایک دہشت گرد گروپ قرار دے رکھا ہے، لیکن وائی پی جی کے بارے میں واشنگٹن کی سوچ ابھی تک انقرہ سے مختلف ہے۔

داعش کے خلاف وائی پی جی کی کامیابیوں سے متاثر ہو کر واشنگٹن انہیں مئی سے بکتر بند گاڑیاں اور چھوٹے ہتھیار فراہم کر رہا ہے۔

وائی پی جی نے جہادیوں کے قبضے سے ایک بڑا علاقہ آزاد کروا لیا ہے، جو زیادہ تر ترک سرحد کے ساتھ واقع ہے۔ انقرہ کو یہ خدشہ ہے کہ وائی پی جی ، ترک علاقے کے کردوں میں بے چینی کو ہوا دے سکتا ہے۔

مقامی میڈیا نے نامعلوم ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ دونوں ملکوں کے عہدے داروں کے درمیان ملاقات میں امریکی وزیر دفاع نے کر دگروپ پی کے، کے خلاف امریکی تعاون کا ایک بار پھر اعادہ کیا۔

مقامی میڈیا نے سفارتی ذرائع کے حوالے سے کہا ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان روس کی جانب سے ترکی کو فراہم کیے جانے والے میزائل کے دفاعی نظام پر بھی بات چیت ہوئی جس کی مالیت اربوں ڈالر میں ہے۔ امریکی وزیر دفاع اس دفاعی نظام پر پہلے ہی اپنے تحفظات کا اظہار کر چکے ہیں۔