اِن الزامات کے بعد، صورتِٕ حال یوں مزید گھمبیر ہوجاتی ہے کہ اس بدعنوانی کے اسکینڈل میں ایران کو ملوث بتایا گیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ایرانی کاروباری افراد نے ترکی کے اہل کاروں کو رشوت کی پیش کش کی، تاکہ بین الاقوامی تعزیرات سے بچنے کی کوشش میں ترکی کے بینکوں کو استعمال کیا جاسکے
واشنگٹن —
ترکی میں بدعنوانی کے اسکینڈل کے نتیجے میں حکومت مشکلات میں آگئی ہے، جس پر وزیر اعظم رجب طیب اردگان نے اپنی کابینہ میں اچانک تبدیلیاں کی ہیں۔ تاہم، ایسے میں جب غیر یقینی کی فضا بڑھ رہی ہے، امکان ہے کہ اس کے اثرات ترکی کی سرحدوں سے باہر تک پھیل سکتے ہیں۔
’وائس آف امریکہ‘ کے جیف سیلڈن کہتے ہیں کہ رقوم کی غیر قانونی ترسیل اور تعمیراتی منصوبوں کے حوالے سے رشوت دیے جانے کے الزامات نے چوٹی کے وزراٴ اور اُن کے بیٹوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے، جس کے نتیجے میں، جارحانہ انداز اپنانے والے وزیر اعظم رجب طیب اردگان کو اپنی کابینہ میں ردوبدل کرنا پڑا۔
اِس قسم کے واقعات نے عوام کی بے چینی بڑھا دی ہے، جن میں سے بعض سڑکوں پر نکل آئے ہیں اور پولیس سے جھگڑتے ہوئے حکومت اور وزیر اعظم سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
سولی اوزل استنبول کی نجی، قادر یونیوسٹی سے وابستہ ہیں۔ بقول اُن کے، تصور یہ اُبھرتا ہے کہ ترکی میں کاروبارِ زندگی مفلوج ہو کررہ گیا ہے، جہاں ہنگامہ آرائی تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہی۔
ترکی کے اخبارات افواہوں سے بھرے پڑے ہیں، چند ایک میں اِس رائے کا اظہار کیا گیا ہے کہ انقرہ کے امریکی سفارت خانے میں سفارت کار موجودہ حکومت کے خلاف برملہ مہم چلا رہے ہیں۔
امریکہ نے اِن الزامات کو ’بے بنیاد‘ اور ’بہت ہی پریشان کُن‘ قرار دیا ہے۔ لیکن، وہ زیادہ تر محتاط ہے۔ محکمہٴ خارجہ کی خاتون ترجمان جین ساکی نے گذشتہ ہفتے کہا تھا کہ اِن واقعات کی تفصیل کے بارے میں ہم کچھ نہیں کہہ سکتے۔ ہم ترکی سے اس بات کی توقع رکھتے ہیں کہ شفافیت کی اعلیٰ روایات، بروقت اقدام، اور اپنے عدالتی نظام کے منصفانہ ہونے کو یقینی بنایا جائے۔
ایسے میں جب ترکی کے وزیر خارجہ، احمد داؤداوگلو، امریکہ کے دورے پر تھے، وہ ابھی اپنا قلم دان سنبھالے ہوئے ہیں، جب کہ یہ اسکینڈل مشرق وسطیٰ میں ترکی کے کردار پر اثرانداز ہو سکتا ہے، جہاں اُس نےعراق اور شام سے متعلق کلیدی مؤقف اختیار کرکے، اپنے ملک کے مقام کو بڑھانےکی کوشش کی تھی۔
اِن الزامات کے بعد، صورتِٕ حال یوں مزید گھمبیر ہوجاتی ہے کہ اس بدعنوانی کے اسکینڈل میں ایران کو ملوث بتایا گیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ایرانی کاروباری افراد نے ترکی کے اہل کاروں کو رشوت کی پیش کش کی، تاکہ بین الاقوامی تعزیرات سے بچنے کی کوشش میں ترکی کے بینکوں کو استعمال کیا جاسکے۔
اِس وقت برہم ترک عوام جوابدہی پر مصر ہیں، ایسے میں جب وہ اور باقی دنیا، حالات کی اگلی کروٹ دیکھنے کے منتظر نظر آتے ہیں۔
’وائس آف امریکہ‘ کے جیف سیلڈن کہتے ہیں کہ رقوم کی غیر قانونی ترسیل اور تعمیراتی منصوبوں کے حوالے سے رشوت دیے جانے کے الزامات نے چوٹی کے وزراٴ اور اُن کے بیٹوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے، جس کے نتیجے میں، جارحانہ انداز اپنانے والے وزیر اعظم رجب طیب اردگان کو اپنی کابینہ میں ردوبدل کرنا پڑا۔
اِس قسم کے واقعات نے عوام کی بے چینی بڑھا دی ہے، جن میں سے بعض سڑکوں پر نکل آئے ہیں اور پولیس سے جھگڑتے ہوئے حکومت اور وزیر اعظم سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
سولی اوزل استنبول کی نجی، قادر یونیوسٹی سے وابستہ ہیں۔ بقول اُن کے، تصور یہ اُبھرتا ہے کہ ترکی میں کاروبارِ زندگی مفلوج ہو کررہ گیا ہے، جہاں ہنگامہ آرائی تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہی۔
ترکی کے اخبارات افواہوں سے بھرے پڑے ہیں، چند ایک میں اِس رائے کا اظہار کیا گیا ہے کہ انقرہ کے امریکی سفارت خانے میں سفارت کار موجودہ حکومت کے خلاف برملہ مہم چلا رہے ہیں۔
امریکہ نے اِن الزامات کو ’بے بنیاد‘ اور ’بہت ہی پریشان کُن‘ قرار دیا ہے۔ لیکن، وہ زیادہ تر محتاط ہے۔ محکمہٴ خارجہ کی خاتون ترجمان جین ساکی نے گذشتہ ہفتے کہا تھا کہ اِن واقعات کی تفصیل کے بارے میں ہم کچھ نہیں کہہ سکتے۔ ہم ترکی سے اس بات کی توقع رکھتے ہیں کہ شفافیت کی اعلیٰ روایات، بروقت اقدام، اور اپنے عدالتی نظام کے منصفانہ ہونے کو یقینی بنایا جائے۔
ایسے میں جب ترکی کے وزیر خارجہ، احمد داؤداوگلو، امریکہ کے دورے پر تھے، وہ ابھی اپنا قلم دان سنبھالے ہوئے ہیں، جب کہ یہ اسکینڈل مشرق وسطیٰ میں ترکی کے کردار پر اثرانداز ہو سکتا ہے، جہاں اُس نےعراق اور شام سے متعلق کلیدی مؤقف اختیار کرکے، اپنے ملک کے مقام کو بڑھانےکی کوشش کی تھی۔
اِن الزامات کے بعد، صورتِٕ حال یوں مزید گھمبیر ہوجاتی ہے کہ اس بدعنوانی کے اسکینڈل میں ایران کو ملوث بتایا گیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ایرانی کاروباری افراد نے ترکی کے اہل کاروں کو رشوت کی پیش کش کی، تاکہ بین الاقوامی تعزیرات سے بچنے کی کوشش میں ترکی کے بینکوں کو استعمال کیا جاسکے۔
اِس وقت برہم ترک عوام جوابدہی پر مصر ہیں، ایسے میں جب وہ اور باقی دنیا، حالات کی اگلی کروٹ دیکھنے کے منتظر نظر آتے ہیں۔